ماحولیاتی تبدیلیوں کے غیر متوقع اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔حالیہ پری مون سون بارشوں کے دوران میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 20 سینٹی گریڈ سے بھی نیچے آ گئی اس دوران سوات، دیر، چترال اور وادی کاغان میں درحہ حرارت پہلی بار جون کے مہینے میں نقطہ انجماد سے نیچے گر گیا۔بارش دینے والی ہواؤں کا رخ مڑتے ہی سورج آگ برسانے لگا۔ میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ ہونا کوئی انہونی بات نہیں تاہم پہاڑی علاقوں میں بھی 42 سینٹی گریڈ کے ساتھ سورج آگ برسانے لگا جس کی وجہ سے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اوربرفانی جھیلیں پھٹنے لگی ہیں۔گلوف کے حالیہ سروے کے مطابق رواں سال چترال، گلگت بلتستان اور سوات میں برفانی جھیلیں پھٹنے سے بڑے پیمانے پر سیلابوں کا خطرہ ہے۔حالیہ دنوں میں چترال کی تحصیل گرم چشمہ کے علاقہ ارکاری اور اپر چترال کے مختلف مقامات پر سیلاب سے کافی مالی نقصان ہوا ہے۔
چترال کا علاقہ ٹاؤن، وادی کالاش، دروش، جوغور، ریشن، بونی، سنوغر، کھوژ اور بریپ شدید خطرات کی زد میں ہیں اسی طرح تریچ، گہکیر اور لوٹ اویر کے علاقوں میں بھی ہولناک سیلابوں کا خطرہ ہے موسمیاتی ماہرین کے علاوہ نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اور پی ڈی ایم اے نے بھی خطرات سے پیشگی آگاہ کردیا ہے۔ بلاشبہ زلزلے، سیلاب، طوفانی بارشیں قدرتی آ فت ہیں جنہیں روکنا انسان کے بس کی بات نہیں تاہم بروقت حفاظتی انتظامات کے زریعے قدرتی آفات سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو ممکنہ حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین منفی اثرات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے اس لئے یہ قومی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے اب بھی وقت ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، غیر سرکاری ادارے اور سول سوسائٹی قدرتی ماحول کو بچانے کیلئے متحرک ہوں۔جنگلات کے بے دریغ کٹائی روکنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ساتھ ہی درخت لگانے اور ان کی نگہداشت کو بھی سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے سانپ کے ڈسنے اورگزرجانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ممالک میں سر فہرست ہے اور اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو ممالک موسمیاتی تبدیلی کا جس قدر زیادہ شکار ہوتے ہیں اسی قدر وہاں پر معاشی مشکلات بھی جنم لیتی ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کا براہ راست اثر زراعت کے شعبے پر پڑتا ہے اور وطن عزیز میں یہی شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس وقت زرعی اجناس کی پیداوار میں تشویش ناک حد تک جو کمی دیکھنے میں آرہی ہے وہ براہ راست موسمیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم ہر شعبہ زندگی پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں اور خاص کر زراعت کے شعبے پر اس کے جو مہلک اثرات پڑے ہیں اس کا تدارک کرنے کیلئے مربوط اور منظم کوششیں ابھی سے شروع کی جائیں۔ غیر متوقع موسمیاتی حالات کیلئے پہلے سے تیاری کی ضرورت ہے چاہے وہ خشک سالی کی صورت میں ہے یا پھر سیلابوں کی صورت میں۔ گزشتہ دنوں جون کے مہینے میں سردی پر تو لوگ حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی تھے تاہم یہ تبدیلی جن حالات کا پیشہ خیمہ ثابت ہوسکتی ہے وہ خوشکن ہر گز نہیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عوام میں آگہی اور شعور کو پیدا کرنے کی بھی ضرور ت ہے تاکہ وہ اپنے ارد گر دماحول کو سمجھیں اور اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں۔