صوبائی حکومت نے گھنٹہ گھر سے ملحقہ بازار (ثقافتی راہداری) کو سیاحوں کے لئے پرکشش بنانے کے جامع منصوبے پر ’60 کروڑ‘ جیسی خطیر رقم خرچ کی لیکن یہ ساری کی ساری کوشش رائیگاں ہو چکی ہے اور گھنٹہ گھر سے بازار کلاں تک فٹ پاتھ پر تجاوزات کی بھر مار ہے جبکہ سڑک کے دونوں اطراف پر آٹو رکشاؤں کی اجارہ داری رہتی ہے اور اِس درمیان ہتھ ریڑھیاں‘ کار پارکنگ اور بھیک مانگنے والوں کے جھتے آمدورفت کو ناممکن حد تک دشوار بناتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ٹریفک جام کی وجہ سے گھنٹہ گھر سے بازار کلاں تک دھویں کے بادل بھی یہاں کی نشانی بن چکے ہیں۔ گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر ثقافتی راہداری (ہیٹریج ٹرائل پراجیکٹ) منصوبے کا سنگ بنیاد سات دسمبر 2017ء کے روز رکھا گیا اور اِس قریب نصف کلومیٹر رہداری میں گورگٹھڑی کے مغربی دروازے سے گھنٹہ گھر تک 40مکانات کو اصل حالت میں بحال کیا گیا جبکہ ایسی 87 عمارتیں جو جدید فن تعمیر کے مطابق بنائی گئیں تھیں اُنہیں تاریخی شکل و صورت دی گئی اور یہ سارا کام ’اقوام متحدہ‘ کے وضع کردہ تاریخی عمارتوں کی مرمت‘ بحالی و تحفظ کے اصولوں کے مطابق کیا گیا اور اِس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ مذکورہ ثقافتی راہداری میں شامل ہر عمارت اور ہر شے کم سے کم 100 سال پرانی دکھائی دے۔ اِسی ثقافتی راہداری منصوبے میں سیٹھی ہاؤس کی بحالی و مرمت بھی مکمل کی گئی جو محکمہئ آثار قدیمہ کی ملکیت میں سال 2006ء سے تھا اور یہ مکان 1850ء سے 1884ء کے درمیان تعمیر ہوا تھا۔
اِس منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 51 کروڑ (513ملین) روپے تھے جب کہ اِس کی تکمیل تک 70 کروڑ 70 لاکھ (707ملین) روپے خرچ ہو چکے تھے کیونکہ ثقافتی راہداری میں بعدازاں سیٹھی ہاؤس کی بحالی کو بھی شامل کر لیا گیا اُور اِس ساری کوشش کا مقصد ’پشاور کے پرکشش سیاحتی مقامات میں اضافہ اور ملکی و غیرملکی سیاحوں کو پشاور کی جانب متوجہ کرنا تھا تاکہ سیاحت کے فروغ سے ملکی و مقامی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔چند بنیادی سوالات کا جواب کون دے گا؟ 1: گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک تجاوزات ختم کرنے کی ذمہ داری کسے سونپی جانی چاہئے؟ 2: گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک راہداری ہر قسم کی ٹریفک کے ممنوع قرار دی گئی تھی تاہم بعد ازاں اِسے پہلے یک طرفہ ٹریفک کے لئے کھولا گیا اور پھر ٹریفک یک طرفہ نہیں رہی بلکہ انتہائی بے ہنگم صورت اختیار کر چکی ہے۔ پشاور ٹریفک پولیس کے ایک ایک اہلکار کو اِس کے داخلی‘ خارجی اور وسطی مقام پر تعینات ہونا چاہئے۔ اگر ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز پورے پشاور کی ٹریفک کو درست نہیں کر سکتے تو کم سے کم ایک کلومیٹر کے علاقے ہی میں ٹریفک کو مثالی شکل و صورت دے سکتے ہیں۔
3: ”والڈ سٹی اتھارٹی“ کے نام سے ایک جامع منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے‘ جس پر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے۔ 4: ثقافتی راہداری کی تعمیر کا کام محکمہئ آثار قدیمہ کے ذریعے مکمل کروایا گیا جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق اِس کی نوک پلک سنواری لیکن اِس کے بعد کوئی بھی حکومتی ادارہ اِس ذمہ داری کو تن تنہا اُٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت کو ’ٹاؤن ون‘ کی حدود میں اِس ثقافتی راہداری کا نگران و منتظم مقرر کیا جائے تاکہ کروڑوں روپے کی اِس تعمیر کو نقصان پہنچانے والوں نمٹا جا سکے۔ 5: ثقافتی راہداری سے متصل تجارتی مراکز اور بازاروں کی الگ الگ تاجر و دکاندار تنظیمیں موجود ہیں‘ جنہیں اِس راہداری کی حفاظت و خوبصورتی کے عمل میں شریک بنایا جا سکتا ہے۔ دکاندار دن کے اختتام اور دن کے آغاز پر گندگی پھیلاتے ہیں جسے رش کے باعث سارا دن نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ 6: ثقافتی راہداری سے متصل رہائشی علاقوں کے مکینوں سے نمائندہ افراد کو نگران و انتظامی کمیٹی کا حصہ بنایا جائے‘ جن کی آمدروفت اور معمولات ِزندگی شہری و رہائشی علاقوں کے درمیان ختم ہوتی تمیز و تفریق کے باعث شدید متاثر ہے لیکن اُن کی فریاد سننے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔