افغانستان سے کوئلے کی درآمد حیران کن ہے۔ افغانی کوئلہ مختلف شہروں میں بجلی گھروں کو فراہم کیا جا رہا ہے جہاں اِس کے استعمال سے بجلی پیدا کی جائے گی‘ حکومت کی جانب سے متعلقہ محکموں خصوصاً پاکستان ریلویز کو محفوظ اور تیز رفتار کوئلے کی نقل و حمل کے آپریشن کیلئے خاطرخواہ انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جس کے بعد افغانستان سے ترجیحی بنیادوں پر کوئلہ کی درآمد شروع ہو چکی ہے‘ افغانی کوئلہ ’خوشال کوٹ‘ نامی ریلوے سٹیشن پر روزانہ قریب تین ہزار ٹن کی مقدار میں لایا جا رہا ہے تاہم ضلع میانوالی کے کنڈین اور بلوچستان کے سبی سے کوئلے کے آپریشن کے آغاز کے بعد یہ درآمدی مال 20 ہزار ٹن یومیہ تک پہنچنے کا امکان ہے‘ سبی ریلوے سٹیشن کو ’ویش چمن کے راستے ٹرکوں میں لایا جائیگا جسے مال گاڑی میں لاد کر مختلف مقامات پر پہنچایا جا رہا ہے‘ لائق توجہ امر یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان کوئلے کی درآمد سے قبل یہ کوئلہ 90 ڈالر فی ٹن کی قیمت پر مل رہا تھا لیکن جیسے ہی پاکستان نے کوئلے کی درآمد کا آغاز کیا اِس کی قیمت فی ٹن 200 ڈالر پر جا پہنچی ہے‘ پاکستان سے زیادہ افغانستان سخت معاشی دور سے گزر رہا ہے اور پاکستان کے معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان حکومت سے مذاکرات کے ذریعے یہی کوئلہ 50 ڈالر فی ٹن پر خریدا جا سکتا تھا لیکن پہلے تو پاکستان نے افغانستان کے مارکیٹ ریٹ 90 ڈالر فی ٹن پر کوئلہ خریدا اور یہ خریداری بنا کسی ایسے معاہدے کے کی گئی جس میں افغان حکومت یا تاجر اِس کی قیمت میں ازخود اضافہ نہ کر سکتے۔
بین الاقوامی معاہدوں اور خریداریوں میں اِس طرح کی شرائط پہلے سے طے کی جاتی ہیں جن کی غیر موجودگی کے باعث چند ہی دنوں میں کوئلے کی قیمت 90 سے 200 ڈالر فی ٹن تک جا پہنچی ہے‘ پاکستان افغانستان سے اجناس درآمد کرتا ہے تاہم کوئلے کی درآمد کا فیصلہ کرتے ہوئے اِس بات کو بھی فراموش کیا گیا کہ پاکستان کے پاس افغانستان سے زیادہ بڑے کوئلے کے ذخائر یعنی دنیا کے 16واں بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہیں جو 9 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ایسے علاقوں میں بنائے گئے ہیں جن کا فاصلہ بندرگاہوں (کراچی و گوادر) سے زیادہ ہے اور اِن بجلی گھروں تک کوئلہ پہنچانے پر اضافی لاگت آتی ہے۔پاک افغان تجارت کے اعدادوشمار خاصے دلچسپ و عجیب ہیں۔ گزشتہ 17 برس کے دوران پاکستان کی جانب سے افغانستان کی برآمدات میں 17.9فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ہے جو سال 2003ء میں قریب 3 کروڑ (29.9 ملین) ڈالر سے بڑھ کر سال 2020ء کے اختتام تک قریب پچاس کروڑ (492 ملین) ڈالر تک پہنچ گئی ہے تاہم دو ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت کا یہ حجم انتہائی کم ہے۔ سال 2020ء کے اختتام تک افغانستان کی جانب سے پاکستان کو برآمدات نہ ہونے کے برابر رہیں جبکہ پاکستان نے مجموعی طور پر ’87 کروڑ (870ملین) ڈالر‘ برآمدات کیں۔ افغان کوئلے کی درآمد سے متعلق فیصلے کا ’اچھا (مثبت) پہلو‘ یہ ہے کہ یہ خریداری ڈالروں کے مساوی پاکستانی روپے (کرنسی) میں کی جا رہی ہے۔
افغانستان کو کوئلے کی قیمت پاکستانی روپے میں ادا کرنا درست فیصلہ ہے اور اِس سے حاصل ہونیوالی آمدنی کا اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہوئے افغانستان پاکستانی منڈیوں سے اجناس یا اپنی ضروریات کے مطابق سازوسامان یا اجناس خریدے گا جس سے اُمید ہے کہ پاکستان کا پیداواری شعبہ ترقی کریگا۔ پاکستان میں تیار ہونے والی اشیا فروخت ہونے اور اِن کی طلب بڑھنے سے روزگار کے مواقع میں اضافہ متوقع ہے اور اِس طرح سے شروع ہونے والی معاشی سرگرمی سے دونوں ممالک یکساں فائدہ اُٹھائیں گے‘ افغان کوئلے سے متعلق پاک افغان معاہدے کے تحت یہ کوئلہ سڑک کی بجائے ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے ساہیوال اور حب میں بجلی گھروں تک پہنچایا جا رہا ہے جس کیلئے سبی‘ کنڈین اور خوشال کوٹ میں ٹرانسپورٹیشن اسٹیشن قائم کئے جائیں گے‘ جو افغان کوئلے کی درآمد سے متعلق ایک مستقل بندوبست ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ ستائیس جون کے روز حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کیلئے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ کوشش دیگر ممالک سے کوئلہ درآمد کرنے کے مقابلے زرمبادلہ بچانے کیلئے کی گئی۔ افغان کوئلہ دیگر ممالک سے درآمد ہونے والے کوئلے جیسا ”اعلیٰ معیار“ رکھتا ہے اور اِس کی خریداری کیلئے پاکستان کو ڈالروں میں ادائیگیاں بھی نہیں کرنا پڑیں گی تاہم پاکستان میں موجود کوئلے کے ذخائر سے استفادہ اور پاکستان میں موجود کوئلے کے ذخائر کی ترقی بھی یکساں ضروری ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ہوا میں ’کاربن گیس ذرات‘ کا اخراج کرتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ممالک میں شامل پاکستان کیلئے لازم و ضروری ہو چکا ہے کہ یہ ماحول دوست اقدامات کرے اور بالخصوص توانائی کے ایسے تمام ذرائع سے استفادے میں وقت کے ساتھ بتدریج کمی لائی جائے جو ماحول کے خطرہ ہیں یعنی اِن کے استعمال سے کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو اُمید ہے کہ افغان کوئلے کی پاکستانی روپے میں خریداری اور درآمدی فیصلے سے سالانہ2 ارب ڈالر‘ کی بچت ہوگی اور یہی اصول اِس بات کی بھی دعوت ِفکر دے رہا ہے کہ افغانستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک سے تجارت بھی ڈالروں کی بجائے پاکستانی روپے یا پھر بارٹر سسٹم کی صورت کی جائے‘ پاکستان اگر کسی وجہ سے اپنے قدرتی وسائل (تیل‘ گیس اور کوئلے کے ذخائر) کو ترقی نہیں دے سکتا تو کم سے کم پاکستانی کرنسی کی وقعت میں اضافہ تو کر ہی سکتا ہے‘ بنیادی ضرورت کسی مسئلے کا وقتی حل نہیں بلکہ قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کا دائمی حل تلاش کیا جانا چاہئے۔