غزہ،کرہ ار ض کی سب سے بڑی جیل 

اب تو پندرہ سال مکمل ہوچکے ہیں کہ غزہ کی ناکہ بندی کرتے ہوئے اس کو عملی طورپر دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کیاگیاہے مگر عالمی برادری تو ایک طرف امت مسلمہ بھی حر کت میں آنے کیلئے تیار نہیں اوریوں فلسطین کے مظلوم مسلمان امت مسلمہ کے جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں اوراب تو عملی طورپر عرب دنیا نے فلسطین سے منہ موڑتے ہوئے بتدریج اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھاناشروع کردی ہیں جس کے بعدباقی مسلمان ممالک بھی فلسطینی بھائیوں کو نظراندازکرتے جارہے ہیں اوراسی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلندتر ہوتے جارہے ہیں چنانچہ آج غزہ کی ناکہ بندی کو پندرہ سال ہوچکے ہیں 2020کے اوائل میں کورونا نے لاک ڈاؤن جیسی نئی اصطلاح سے دنیا کو متعارف کروایا تھا۔عالمی وبا کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر کہیں چند ہفتے تو کہیں چند ماہ تک نقل و حرکت پر عائد کردہ پابندی نے عام آدمی کی زندگی جہنم بنادی۔ اب آپ ذرا تصور کیجئے غزہ پٹی کے ان بیس لاکھ سے زیادہ باشندوں کی حالت زار کا جنہیں پچھلے پندرہ برسوں سے لاک ڈاؤن کا عذاب جھیلنا پڑرہا ہے اور جنہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ اس قید سے مستقبل قریب میں رہائی ممکن نہیں ہے۔
 بحیرہ روم کے کنارے365 مربع کلو میٹر پر محیط غزہ کبھی ایک خوبصورت ساحلی شہر ہوا کرتا تھا۔لیکن طویل ناکہ بندی کے سبب اب اس کے گلے میں دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائیر جیل کا طوق لٹک رہاہے جہاں کے باشندے اک جبر مسلسل کاشکار چلے آرہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حوالہ سے آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں غزہ مصر کا علاقہ تھا جس پر اسرائیل نے1967کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔ لیکن 2005میں اسرائیلی حکومت نے وہاں تعینات فوج ہٹالی، غیر قانونی طور پر بسائے گئے آٹھ ہزار یہودیوں کو نکال لیا اور غزہ کے تسلط کے خاتمہ کااعلان کردیا لیکن اقوام متحدہ ابھی بھی غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقہ تصور کرتی ہے کیونکہ اس پورے علاقے پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے2006ء میں جب غزہ میں پارلیمانی انتخابات کرائے گئے تو حماس کے ہاتھوں فتح پارٹی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
 اسرائیل اورامریکہ اس غیر متوقع نتیجہ کیلئے تیار نہیں تھے۔حالانکہ بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں کرائے گئے یہ انتخابات بالکل صاف ستھرے تھے لیکن چونکہ اسرائیل اور امریکہ کے من پسندفلسطینی لیڈر محمود عباس کی پارٹی انتخاب ہارگئی اس لئے انہوں نے جمہوری طور پر منتخب کی گئی حماس (جسے وہ دہشت گرد تنظیم سمجھتے تھے) کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد پر پابندی لگا دی یوں جمہوریت کے چیمپئن کہلوانے والوں نے غزہ کے لوگوں کی طرف سے جمہوری حق کے آزادانہ استعمال قبول نہ کرنے کاعملی مظاہرہ کرنے میں جت گئے اوراس پر پوری دنیا کی جمہوری قوتیں خاموش تماشائی بن گئیں اورحال ان کی طرف سے اس بدترین طرز عمل کا تماشاکیاجارہاہے حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد تل ابیب نے غزہ کو دشمن علاقہ قرار دے کر جون 2007میں اس پر شدید ترین پابندیاں عائد کرکے اس کی مکمل ناکہ بندی کردی۔غزہ میں ایک ائیر پورٹ بھی ہوا کرتا تھا جسے بیس سال قبل اسرائیل نے بمباری کرکے تباہ کردیا تھا۔
 فضائی رابطہ پہلے ہی سے منقطع تھا،اب غزہ کا باقی دنیا سے سڑ ک اور سمندر سے بھی رابطہ کاٹ کر رکھ دیا گیا اورانسانوں اور سرو سامان کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی لگادی گئی اوریوں صہیونی طاقتوں نے بیس اکیس لاکھ فلسطینیوں کو پندرہ برسوں سے ساری دنیا سے الگ تھلگ کرکے رکھ دیا ہے۔اس ظالمانہ ناکہ بندی کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں فلسطینی باشندے صرف باقی دنیا سے ہی نہیں بلکہ مغربی کنارہ میں رہائش پذیر اپنے فلسطینی بھائیوں سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں۔ حماس کو اقتدار سونپنے کی وجہ سے غزہ کے عوام کو اس جان لیوا ناکہ بندی کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے گویا کہ غزہ کے لوگوں کو جمہوری حق کے استعمال کی طویل سزا دی جارہی ہے نتیجہ یہ ہے اکیس لاکھ لوگ جن میں سے نصف کے قریب پندرہ سال سے کم عمر کے بچے ہیں،پانی، غذا، بجلی اور دواؤں کی مستقل فراہمی کے بغیر ہر روز اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے مجبور ہیں۔
 انٹرنیشنل ریڈ کراس کے مطابق غزہ کے80 فیصد باشندوں کو چوبیس گھنٹوں میں محض آٹھ سے دس گھنٹوں کے لئے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔حماس کی انتخابی فتح کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے بمباری کرکے غزہ کے طاقتور پاور پلانٹ کو تباہ کردیا تھا تب سے بجلی کی یہ قلت جاری ہے۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے مطابق 94فیصد غزہ کے باشندوں کا خیال ہے کہ بجلی کی قلت ان کی دماغی صحت پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔ طویل اسرائیلی محاصرے نے غزہ کی معیشت مکمل طور پر تباہ کردی ہے۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق آج غزہ کے60فیصد باشندے خط افلاس کے نیچے رہتے ہیں او80فیصد فلسطینیوں کا گذارہ بین الاقوامی امداد پر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ اگر ناکہ بندی عائد نہیں کی گئی ہوتی تو غزہ میں غریبی کی شرح60 فیصد نہیں 15 فیصد ہوتی۔ 2020میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ناکہ بندی کی جو معاشی قیمت غزہ کو ادا کرنا پڑی ہے وہ17ارب ڈالر کے قریب ہے۔
شہر میں کل کارخانے اور تعمیرات مکمل طور پر ٹھپ پڑجانے کی وجہ سے نصف آبادی روزگار کے ذرائع سے محروم ہوچکی ہے۔ جابرانہ اسرائیلی احکامات کی وجہ سے غزہ کے کسان اپنے کھیتوں میں کاشت کاری اور مچھیرے سمندر میں مچھلیوں کا شکار آزادنہ طور پر نہیں کرسکتے ہیں۔ غزہ کی ناکہ بندی کا سب سے خراب اثر بچوں پرپڑا ہے جن کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ سیو دی چلڈرن نام کے بین الاقوامی ادارے کے ایک حالیہ سروے میں یہ المناک حقیقت سامنے آئی کہ غزہ کے80 فیصد بچے شدید ذہنی دباؤاور ڈپریشن کا شکار ہیں اور پچاس فیصد بچوں کے ذہن میں کبھی نہ کبھی خودکشی کا خیال بھی آیا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ان بچوں کے خوف، اداسی، صدمہ اورپڑمردگی کے احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔
 اسرائیل جغرافیائی،سیاسی اور اقتصادی ناکہ بندی سے غزہ کے باشندوں کو ملنے والی سزاکو ناکافی سمجھتا ہے اسی لئے دو تین سال میں ایک بار وہ اس کھلی جیل پر آسمان سے آگ کی بارش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ 2008،2012ء،2014ء اور2021ء کی جنگوں میں اسرائیلی فضائیہ کی اندھادھند بمباریوں میں غزہ میں سینکڑوں رہائشی مکانات کے ساتھ ساتھ ہسپتال، سکول، پل اور سڑکیں بھی تباہ کردی گئیں۔ آکسفم کا دعویٰ ہے کہ غزہ کے باشندے پندرہ برسوں سے جیسے غیر انسانی حالات میں جی رہے ہیں ان کا کوئی قانونی یااخلاقی جواز نہیں ہوسکتا ہے اسی لئے غزہ کا محاصرہ بلا شر ط فوراً ختم کیا جانا چاہئے اس معاملہ پر اقوام متحدہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے جبکہ عالمی برادری اور خاص طورپر یورپی یونین منافقانہ روش پر عمل پیرا ہیں کیونکہ جب روس نے یوکرائن پرحملہ کرکے اس کو با قی دنیا س کاٹنے کی کوشش کی تو پوری سفید فام دنیا لرز اٹھی اور یوکرائن کی حمایت میں نکل آئی مگر یہی سلوک گذشتہ پندرہ سال سے اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کیساتھ کررہاہے اور سب نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں یوکرائن کی صورتحال پر ماتم کناں مغربی ممالک کے لیڈران اور میڈیا جس طرح کے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں اس سے ان کی منافقت اور نسل پرستانہ ذہنیت پوری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔