فروغ سیاحت کے تقاضے

دنیا کے بلند ترین قدرتی سٹیڈیم شندور میں تین روزہ میلہ اختتام پذیر ہوا۔ اس بار ریکارڈ تعداد میں سیاحوں نے شندور میلے میں شرکت کی جن میں چترال اور گلگت بلتستان کے پولو شائقین کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں اور بیرون ملک سے آئے سیاحوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ سطح سمندر سے بارہ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع شندور جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہا تھا۔سیاح چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان قدیم طرز کے فری سٹائل پولو مقابلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈنگ، ہائیکنگ اور روایتی ثقافتی پروگراموں سے خوب محظوظ ہوئے۔ چترال اور گلگت بلتستان کی اے ٹیموں کے درمیان پولو کا فائنل انتہائی دلچسپ، اعصاب شکن اور سنسنی خیز رہا۔جس میں چترال اے کی ٹیم نے گلگت اے کو 9 کے مقابلے میں 10 گول سے ہرا کر ڈبل ہیٹ ٹریک مکمل کرلی۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔اس سے قبل صدر ضیاالحق، صدر پرویز مشرف، محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ خیبر پختونخوا کے گورنرز، وزرائے اعلی، وفاقی اور صوبائی وزرا شندور میلے میں شرکت کرتے رہے ہیں اس میلے کی وساطت سے چترال اور گلگت کے عوام اپنی مشکلات حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں سابق صدر پرویز مشرف نے لواری ٹنل اور گلگت شندور روڈ کی تعمیر کا اعلان بھی اسی موقع پر کیا تھا۔ان دونوں منصوبوں نے چترال اور شمالی علاقوں کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو شندور میلے کی طرف راغب کرنے میں محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کا اہم کردار رہا ہے۔شندور میلے کے 25 فیصد شرکا مختلف سرکاری اداروں کے مہمان ہوتے ہیں جبکہ 75 فیصد شرکا اپنی آمد ورفت، رہائش اور قیام و طعام کا خود بندوبست کرتے ہیں۔اس سال محکمہ موسمیات اور پی ڈی ایم اے نے جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب آنے کے خدشے سے پیشگی آگاہ کردیا تھا تاہم  باوجود اس کے میلے سے واپس آنے والے ہزاروں افراد وادی لاسپور میں پھنس گئے ہیں۔ہرچین، رامن گوم، شائی داس اور گشٹ کے مقامات پر ندی نالوں میں طغیانی کے باعث سڑکیں اور رابطہ پل سیلاب کی نذر ہوگئے۔ سیاحوں کی کئی گاڑیاں بھی سیلاب میں بہہ گئیں۔اس ناگفتہ بہہ صورت حال سے دوچار ہونے والوں کی مشکلات کا اندازہ وہاں موجود لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحت کے فروع کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے اور اس حوالے سے قابل قدر کام کیاہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی تاہم ساتھ ہی لوگوں کو سیاحتی مقامات کی طرف راغب کرنے کیلئے انہیں بہتر سفری اور قیام وطعام کی سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔خصوصا شندورمیلہ، وادی کالاش میں چیلم جوش جیسے سالانہ تہواروں میں شرکت کرنے والوں کی محفوظ آمدورفت کا انتظام کرنا متعلقہ صوبائی محکموں کی مشترکہ ذمہ داری ہے جس کی بہتر انداز میں بجا آوری کے بغیر صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے اور معاشی طور پر خود کفالت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔اس وقت دنیا بھر میں سیاحت ایک منافع بخش شعبے کی حیثیت سے توجہ کامرکز ہے اور بہت سے ممالک تو ایسے ہیں جن کی ترقی اور خوشحالی کا راز ہی ان کی سیاحت کے شعبے کی روز افرزوں ترقی ہے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے قابل دید اور تاریخٰ مقامات تک رسائی کو انتہائی آسان بنانے کے ساتھ ساتھ وہاں پر سیاحوں کو ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ امید ہے کہ جس طرح صوبائی حکومت سیاحت کے شعبے کی ترقی کی طرف متوجہ ہے، باقی ماندہ چھوٹے موٹے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔