امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے ’کریگ وٹلاک(Craig Whitlock)‘ نے ”دِی اَفغانستان پیپرز(The Afghanistan Papers) افغان جنگ کی خفیہ تاریخ“ کے نام سے 359صفحات پر مشتمل کتاب تصنیف کی ہے جس میں افغانستان کے محاذ پر سیکھے اور فراموش کردہ اسباق کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکہ اور اِس کی سیاسی و عسکری قیادت نے غلط اندازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملیاں بنائیں جو ناکام ہوئیں۔ افغان جنگ میں ناکامی کے اسباب جاننے کے لئے اِن مہمات میں حصہ لینے والے سینکڑوں فوجی و غیرفوجی شرکاء سے بات چیت (انٹرویوز) کی گئی جس کا بنیادی مقصد افغانستان سے متعلق پالیسی ناکامیوں کی تشخیص کرنا تھا اور اِن انٹرویوز کا سلسلہ تیرہ سال تک جاری رہا! جب واشنگٹن پوسٹ نے اِس خصوصی تحقیق کو منظرعام پر لانے کیلئے امریکی حکومت سے رجوع کیا تو حکومت نے اخبار کو مذکورہ دستاویزی فائلوں تک رسائی نہیں دی۔ جس کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے وفاقی حکومت کے خلاف 2مقدمات دائر کئے اور بالآخر تین سالہ قانونی جنگ کے بعد تمام دستاویزات تک رسائی حاصل کر لی جو 428 افراد سے بات چیت پر مبنی تھیں اور یہ 2 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل حقائق ہیں۔ اِن میں فوجی اہلکاروں اور سفارت کاروں سے لے کر کارکنوں اور افغان مقامی لوگ جنہوں نے امریکی افواج کی مدد کی اُن کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے دسمبر 2019ء میں یہ نتائج مرحلہ وار شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور بعدازاں اِس پورے سلسلے کو ’کریگ وٹلاک‘ نے اپنی کتاب ’دی افغانستان پیپرز‘ کے عنوان سے اپنے مقالات کا حصہ بنایا۔امریکی ادارے کی تحقیق کی خاص بات یہ تھی کہ اِس میں اظہار خیال کرنے والوں نے ’بے تکلفی‘ سے بات کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ باتیں امریکہ کی حکومت سے کہہ رہے ہیں اور انہوں نے یہ بھی فرض کر لیا تھا کہ یہ باتیں کبھی ظاہر نہیں ہوں گی۔ افغانستان پیپرز درحقیقت امریکہ کی ناکامی اور اِس ناکامی کے بارے میں بولے گئے جھوٹ کی مجموعہ کتاب ہے اور یہ کتاب اِس بارے میں بھی ہے کہ اس جھوٹ کی وجہ سے کس طرح امریکہ کو جنگی محاذ پر ناکامیاں ہوئیں۔ پوری کتاب میں مستقل موضوع یہ ہے کہ امریکہ کو کبھی معلوم نہیں تھا کہ وہ افغانستان میں کیا کر رہا ہے۔ کیا وہاں فوجی القاعدہ کا مقابلہ کرنے یا افغانستان کو جدید مغربی طرز کی جمہوریت میں تبدیل کرنے کیلئے موجود تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ مشن کبھی طے نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے امریکی پالیسی کئی دہائیوں تک ناکام رہی اور واضح مقصد کے بغیر جنگی و سیاسی حکمت عملیاں تبدیل بھی کی جاتی رہیں‘ جس سے الگ نقصان ہوا۔ امریکہ کی افواج کو پہلے افغانستان میں داخل کیا گیا اور پھر اچانک اُنہیں وہاں سے نکال لیا گیا جبکہ حالات دونوں مواقعوں پر امریکہ کیلئے سازگار نہیں تھے۔ اِسی طرح افغان معیشت کو سہارا دینے کیلئے امریکی ڈالر خرچ کئے گئے اور یہ اخراجات ایسے منصوبوں پر کئے گئے جن کے مقاصد بارے میں امریکہ کو واضح طور پر بہت کم معلومات تھیں یا پھر اُن کے وسیع مقاصد نہیں تھے۔ کتاب سے اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں جنگی منصوبوں میں خامیاں موجود تھیں اور امریکہ نے افغانستان کو ایک جدید ملک بنانے کی کوشش کی جو کہ ممکن نہیں تھا اور اِس کوشش میں اربوں ڈالر ضائع کر دیئے گئے۔ کتاب اِس بات کی تصدیق بھی کرتی ہے کہ امریکی حکومت نے جان بوجھ کر اپنی اور افغان عوام کو گمراہ کیا۔ کابل اور وائٹ ہاؤس میں فوجی ہیڈ کوارٹرز کے حکام نے باقاعدگی سے اعداد و شمار مسخ کر کے پیش کئے تاکہ ایسا لگے کہ جیسے امریکہ افغانستان میں جنگ جیت رہا ہے جبکہ واضح طور پر ایسا نہیں تھا اور امریکہ کو افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ جسے اُس کی سیاسی و عسکری قیادت تسلیم کرتی ہے۔افغان قوم کی تعمیر کے بارے میں امریکی فوج الجھن کا شکار رہی۔ امریکی حکام نے کہا کہ وہ ملک کی تعمیر نہیں کریں گے لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا۔ امریکہ نے استحکام اور امن قائم کرنے کی بجائے ایک کمزور افغان حکومت قائم کی جو اپنی بقا کیلئے امریکی فوجی طاقت پر انحصار کرتی تھی اور یہ افغان عوام کی نمائندہ حکومت نہیں تھی اور یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ جن افغان حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ان پر کئی طرح کے الزامات تھے۔ پینٹاگون کے عہدیداروں نے تصدیق کی کہ امریکی حکومت نے شروع سے ہی جنگجوؤں کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نہیں اپنایا لیکن ایسے جنگجوؤں سے ہاتھ ملایا جو افغانستان کی بربادی میں شریک رہے اور اِس بات کو افغان عوام کی اکثریت نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ امریکی عوام اب بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’اگست 2021ء‘ تک امریکہ نے جن افغان فوجیوں کو تربیت دی‘ جنہیں مالی امداد اور جدید اسلحہ فراہم کیا گیا اُنہوں نے اِس قدر کم وقت میں ہتھیار کیوں ڈالے؟ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی نے اِس بارے میں اپنے طور تحقیقات کیں۔ امریکی حکام نے امریکی عوام کو اِس بات کا یقین دلایا تھا کہ افغان منصوبہ (حکمت عملی) کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور جب امریکہ نے افغان فوج بنانے کی کوشش کی تو اِس فوج کے پاس اپنا بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا جس کی وجہ سے بیشتر کام صرف کاغذوں کی حد تک کئے گئے اور اصل بات یہ تھی کہ افغان فوج کا حصہ بننے والے بہت سے لوگ صرف تنخواہ کے لئے کام کر رہے تھے کیونکہ افغانستان کی اپنی کوئی معیشت نہیں تھی۔ اِسی وجہ سے ”بھوت فوجی“ اور ”بھوت چھاؤنیاں“ قائم کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ امریکی امداد (ڈالرز) حاصل کئے جا سکیں۔افغانستان پیپرز میں امریکہ کی ایک اور ناکامی کا بھی ذکر ملتا ہے جو افیون کی کاشت روکنے کے حوالے سے ہے۔ امریکہ نے دنیا کو بتایا کہ اُس نے ایک خصوصی کاروائی کرتے ہوئے افغانستان میں افیون کی فصل کو بڑے پیمانے پر تلف کر دیا ہے اور قریب دو ماہ کی اِس مہم میں کامیابی کے لئے افغان حکومت کی تعریف بھی کی گئی جس کا کریڈٹ امریکہ نے لیا لیکن بڑے پیمانے پر افیون (پوست) کی کاشت تلف کرنے میں حقیقت نہیں تھی۔ امریکہ نے پوست کی فصل تلف کرنے کے عوض افغان کاشتکاروں کو ادائیگیاں کیں لیکن وہ ڈالر وصول کرنے کے باوجود بھی افیون کاشت کرتے رہے اور اِس پورے دھندے میں سابقہ افغان حکومت کے اہلکار ملوث تھے جنہوں نے غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ بات بھی عیاں ہوئی ہے کہ بہت سی غلط بیانیاں امریکی حکام کے علم میں بھی تھیں اور جانتے تھے کہ سابقہ افغان حکام اور افغان فوجی اُن سے جھوٹ بول رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود احتساب نہیں کیا گیا۔ افغانستان کی جنگ سے امریکہ کی قیادت سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتی رہی بالخصوص امریکہ میں عام انتخابات کے موقع پر افغانستان میں کامیابیوں کا ذکر کیا جاتا رہا اور اِس سلسلے میں امریکی صدر بارک اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم میں افغانستان کو اپنی بنیادی ترجیح بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ امریکہ نے عراق پر حملہ کرتے وقت حقیقی جنگ کو نظر انداز کیا تھا۔ اپنا جائزہ لینے کے بعد ان کا خیال تھا کہ ان کے پیشرو کے برعکس جنگ جیتی بھی جا سکتی ہے اور انہوں نے ڈیوڈ پیٹریس اور جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کو اس یقین کو عملی شکل دینے کے لئے مقرر کیا کہ افغانستان جیتا جا سکتا ہے لیکن امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت ایک مرتبہ پھر دھوکہ کھا گئی کہ جنگ شروع کرنے والوں کے جنگ جیتنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں بالخصوص جب یہ جنگ کسی دور دراز محاذ پر لڑی جا رہی ہو۔ ایک ایسے محاذ پر جہاں کی زبان و ثقافت اور سیاسی و سماجی معاشرت سے خاطرخواہ آشنائی نہ ہو۔ مذکورہ کتاب میں افغانستان کی بہتری (تعمیروترقی) کے لئے مختلف امریکی حکمت عملیوں کا بھی جائزہ لیا گیا جیسا کہ ترقی کے بنیادی ڈھانچے میں شامل منصوبوں میں سکولوں‘ شاہراہوں اور سماجی کاموں کا جائزہ لیا گیا‘ جن کا امریکہ کریڈٹ لیتا ہے۔ امریکی صحافی نے امریکہ کی اِس غلط فہمی پر بھی روشنی ڈالی اور خلاصہئ کلام میں لکھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اتنے ترقیاتی کام بیک وقت شروع کئے کہ اُن پر کام کاج کی پیشرفت پر نظر نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ نے بیک وقت اتنے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی کہ وہ اُن سب پر نظر نہیں رکھ سکتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ افغانستان کے محاذ پر کوئی بھی فریق امریکہ کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور یہی امریکہ کی ناکامی کا بنیادی محرک تھا کہ ایک تو امریکہ کو اپنے دوست اور دشمن کی پہچان نہیں تھی اور دوسرا جھوٹ کے سہارے افغان جنگ کو جیتنے کی کوشش کی گئی اور یہ دونوں سبق آموز محرکات (تجربات) ایک تلخ حقیقت کی صورت تاریخ ِعالم کا حصہ ہے۔ کیا افغانستان اور افغانستان کی آڑ میں اِس کے ہمسایہ ممالک سے انصاف کیا گیا؟ مذکورہ کتاب ایسے بہت سے موضوعات سے متعلق تفصیلات سے بھری ہوئی ہے جبکہ یہی ایک کتاب افغان جنگ کے بارے میں امریکی حکمت عملیوں کی خامیوں کا بھی مفصل بیان ہے کیونکہ اِس میں امریکہ پر ہوئے دہشت گرد حملے نائن الیون (سال دوہزارایک) کی اصل وجوہات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ کتاب میں کئی ایسی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جو اِس سے پہلے مستند ذرائع اور حوالوں سے معلوم نہیں تھیں۔ افغانستان کی تاریخ ہے کہ یہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کا قبرستان رہا ہے اور امریکہ کا اِس قبرستان (دلدلی سرزمین) پر قدم رکھنا درحقیقت اِسے شکار کرنے کے مترادف تھا۔ کیا امریکہ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے جاری اور مستقبل کی جنگی مہمات سے باز آئے گا؟ شاید نہیں کیونکہ افغانستان کے بعد یوکرین کی حمایت کرتے ہوئے روس کے خلاف عالمی جنگ شروع کرنے میں امریکہ کی دلچسپی ہر دن بڑھ رہی ہے!۔