بجلی کا متبادل ’بجلی‘ ہی ہے جسے حاصل کرنے کیلئے ’شمسی توانائی کا استعمال فروغ پا رہا ہے تاہم اِس سلسلے میں ناکافی معلومات‘ غیرتربیت یافتہ فروخت کنندہ اور ناجائز منافع خوری جیسے محرکات کی وجہ سے سولر سسٹم کے انتخاب کے سلسلے میں اکثر غلط فیصلے کئے جاتے ہیں‘ سولر سسٹم کی ضرورت صرف اِسی لئے نہیں کہ برقی رو کا بار بار تعطل معمول بن چکا ہے اور گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی زیادہ ہوتی ہے لیکن ’سولر سسٹم‘ بجلی کے بل کم کرنے کا ذریعہ بھی ہو سکتے ہیں اور اِس کے ذریعے گھریلو استعمال کے سبھی آلات جیسا کہ فریج‘ ائرکنڈیشن‘ چولھے‘ پنکھے‘ بلب‘ پانی کی موٹر‘ استری اور کپڑے دھونے کی مشین وغیرہ چلائے جا سکتے ہیں تاہم ’سولر سسٹم‘ خریدنے سے پہلے چند بنیادی باتوں کے بارے میں علم مفید ہو سکتا ہے۔سولر سسٹم کے انتخاب میں سب سے پہلی توجہ طلب بات اِس کا ’معیار‘ ہے‘ سورج کی شعاؤں کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنے کے مراحل میں ہر ایک کا معیار اِس سے خدمات پر اثرانداز ہوتی ہیں چونکہ سولر سسٹم کے بیشتر آلات درآمد ہوتے ہیں اور اگرچہ اِن ضروریات میں چند ایک مقامی طور پر بھی تیار ہوتے ہیں لیکن کارکردگی کے لحاظ سے درآمدی سازوسامان قابل بھروسہ ہوتے ہیں اور چونکہ قیمت کا زیادہ فرق نہیں ہوتا اِس لئے ’سولرسسٹم‘ کا انتخاب کرتے ہوئے معروف کمپنیوں کی بنی ہوئی اشیا ہی خریدیں۔ کوئی بھی چیز خریدنی ہو‘ اِس کی کامیاب خریداری کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ کسی دوسرے کی رائے قبول کرنے سے پہلے اپنی کوئی نہ کوئی رائے ضرور قائم کریں بھلے ہی یہ رائے غلط ہو لیکن اگر آپ رائے رکھتے ہوں گے تو اِس کی اصلاح ہو جائے گی اور آپ کو دکاندار کے علم‘ مہارت اور تجربے کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔
کاروباری حضرات کی عموماً کوشش یہی ہوتی ہے کہ کم قیمت سولر سسٹم درآمد کریں اور اِسے زیادہ قیمت پر فروخت کریں‘ یہی وجہ ہے کہ ’سولرسسٹم‘ فروخت کرنے والوں کے نرخ ایک دوسرے سے نہیں ملتے جس کی وجہ وہ ’معیار کو قرار دیتے ہیں لیکن یہ محرک سوفیصد درست نہیں۔ عموماً دکاندار 2 باتوں کا حوالہ دیتے ہیں‘ پہلا یہ کہ مہنگا روئے ایک بار اور سستا روئے بار بار یعنی اگر آپ زیادہ قیمت کا سولر سسٹم خریدیں گے تو وہ زیادہ عرصے بنا مرمت چلتا رہے گا۔ دوسرا وہ کہتے ہیں ”جتنا گڑ ڈالو گے اُتنا میٹھا ہوگا“ یعنی اگر آپ مہنگا ”سولر سسٹم“ خریدیں گے تو اِس کی کارکردگی لمبے عرصے تک بہتر رہے گی لیکن یہ دونوں ’اقوال‘ ’سولرسسٹم‘ کے انتخاب سے متعلق سوفیصد درست نہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ سولر سسٹم مختلف قسم کے الیکٹرانک آلات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کی مجموعی پیداواری استعداد اور صلاحیت کسی ایک بھی غلط آلے کے انتخاب سے متاثر ہو سکتی ہے حتیٰ کہ سولر پینل سے آنے والی تار کا غلط انتخاب کرنے سے بھی حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ سولر سسٹم لگوانے کیلئے سب سے پہلے کیا جاننا ضروری ہے تو صارف کے گھر یا دکان پر استعمال ہونے والی اوسط بجلی ہے۔ اِس سلسلے میں بجلی کا ماہانہ بل بہترین رہنمائی کر سکتا ہے جسپر ایک سال کے دوران استعمال شدہ بجلی کے یونٹس کی تعداد درج ہوتی ہے۔
اگر بارہ یا اٹھارہ ماہ کے استعمال شدہ بجلی یونٹس کی اوسط نکال لی جائے تو حسب ضرورت درست سولر سسٹم کا انتخاب یقینی ہو سکتا ہے۔ بجلی کے یونٹس کی درست اوسط معلوم کرنے میں دکاندار بھی صارف کی مدد کر سکتا ہے اِس لئے سولر سسٹم خریداری کیلئے جاتے ہوئے اپنے ساتھ گزشتہ چھ ماہ کے متعلقہ بجلی بل لازماً رکھیں‘ ’سولر سسٹم‘ سے حاصل ہونے والی بجلی فروخت بھی کی جا سکتی ہے اور اِس سلسلے میں ”گرین میٹر“ لگایا جاتا ہے‘ جو ضرورت سے زائد اضافی بجلی کے یونٹ تقسیم کار کمپنیوں جیسا کہ خیبرپختونخوا کے بیشتر حصوں میں پیسکو کو فروخت کرتی ہے تاہم پیسکو کی جانب سے لازم قرار دیا گیا ہے کہ منظور شدہ کمپنیوں کے بنے ہوئے سولر سسٹم آلات ہی استعمال کئے جائیں‘ اِس سلسلے میں ’الٹرنیٹ اِنرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کے منظورشدہ آلات ہی کا انتخاب ہونا چاہئے تاکہ ’نیٹ میٹرنگ سسٹم سے منسلک ہونے کی صورت میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ اِس بات کو معلوم کرنے کیلئے کہ آپ جس سولر سسٹم کی خریداری کر رہے ہیں کیا درست انتخاب ہے‘ اِس کیلئے AEDB.ORG نامی ویب سائٹ پر اُن تمام کمپنیوں کے نام اور معلومات فراہم کی گئی ہیں جو درست فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ 1: سولر سسٹم 10 سے 15 سال کام کرنے کی وارنٹی کے ساتھ فروخت کئے جاتے ہیں جبکہ اِن کی قابل استعمال مدت 25 سال بتائی جاتی ہے‘ 2: پاکستان میں منظورشدہ سولر آلات فروخت کرنے والی رجسٹرڈ کمپنیاں بھی ہیں‘ جن کی خدمات اگرچہ کچھ مہنگی ہوتی ہیں لیکن اُن کے کام کا معیار بالخصوص ’وائرنگ‘ اور ’انسٹالیشن‘ معیار ی ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے ایک اوسط ’سولر سسٹم‘ کی عمر بھی بڑھ جاتی ہے اور اُس سے زیادہ لمبے عرصے تک استفادہ کیا جا سکتا ہے‘حرف آخر: پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بیشی کا اثر ’سولر سسٹم‘ کی قیمتوں پر بھی مرتب ہوتا ہے بلکہ زیادہ تیزی سے مرتب ہوتا ہے لہٰذا ’سولر سسٹم‘ خریداری کیلئے جانے سے قبل پاکستانی روپے کے ہفتہ بھر میں شرح تبادلہ کو معلوم کر لیں‘ جہاں تک شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کے بامنافع ہونے کی بات ہے تو یہ سوفیصدی درست نہیں۔
ایک اوسط سولر سسٹم لگانے اور برقی آلات کی اُس کے مطابق تنصیب پر کم سے کم خرچ بھی 10 لاکھ روپے تک آتا ہے اور اِس مقصد کیلئے بینک قرضہ جات بھی فراہم کرتے ہیں‘ جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں حرج نہیں ہے۔ سولرسسٹم کا سب سے بڑا خرچ ’بیٹریوں‘ کا ہے جنہیں ہر تین سے چار سال بعد تبدیل کرنا پڑتا ہے اور اگر کسی گھر یا دکان میں بجلی کا استعمال زیادہ ہے تو اِن بیٹریوں (توانائی ذخیرہ رکھنے کے آلات) کو جلد بھی تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے‘ پاکستان میں ’سولرسسٹم‘ کی درآمد پر ٹیکس معاف کر دیئے گئے ہیں لیکن یہ آلات پاکستان میں بنانے کیلئے صنعتیں نہیں لگ رہیں اور اِس بات کا زیادہ مناسب سمجھا جا رہا ہے کہ سولر سسٹم درآمد کئے جائیں اور تیسری بات یہ ہے کہ 10 لاکھ کا سولر سسٹم لگانے والوں کو ہر دو ڈھائی سال بعد تین لاکھ روپے کی بیٹریاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں تو بہتر یہی ہے کہ چودہ گھنٹے روشنی کے اوقات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایسے سولر سسٹم کا انتخاب کیا جائے جو بنا بیٹری کام کرتا ہو اور سورج غروب ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ لوڈشیڈنگ برداشت کرنے یا صرف پنکھے اور لائٹس کیلئے بیٹری کا استعمال ماحول دوست اور کم خرچ ثابت ہوگا۔