کفایت شعاری کی پالیسی

خیبر پختونخوا حکومت نے کفایت شعاری پالیسی کے تحت صوبائی وزراء اور سرکاری محکموں کیلئے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی ہے سرکاری محکموں، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں میں نئی بھرتیوں پر بھی پابندی ہو گی۔ افسروں کے تفریحی دوروں اور بیرون ملک علاج پر بھی پابندی ہو گی۔صوبائی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد سرکاری افسروں اور ملازمین کے فیول کوٹے میں بھی 35 فیصد کٹوتی کی تھی۔دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی اس وقت بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔دوسری طرف آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کاقرضہ حاصل کرنے کیلئے حکومت کے پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر پڑا ہے بجلی 13 روپے سے بڑھ کر 28 روپے یونٹ ہو گئی پٹرول 250اور ڈیزل 272روپے لیٹر ہو گیا۔خوردنی تیل کی قیمت 180روپے سے بڑھ کر 620روپے لیٹر ہو گئی چکن اور گوشت عام آدمی کی قوت خرید سے پہلے ہی باہر تھا اب دال بھی ان میں شامل ہو گئی ہے۔
ویسے سچ تو یہ ہے کہ ملک مشکل صورتحال سے دوچار ہے تواس کا بوجھ بھی سب کو مل جل کر بانٹنا چاہئے‘ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک پوسٹ کوکروڑوں کی تعداد میں صارفین نے لائیک اور شیئر کیا ہے اس پوسٹ میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ اس بارملک کیلئے قربانی دینے کی باری اشرافیہ کی ہے،یہ تجویز تو بہت معقول ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی روایت کے مطابق کفایت شعاری مہم میں پہل کر دی ہے صوبائی حکومت کو وسائل کا اسراف بچانے کیلئے مزید سخت اقدامات کرنے چاہئیں،تاکہ دوسرے صوبے بھی خیبر پختونخوا کی تقلید کرنے پر مجبور ہو جائیں اور اس طرح قوم کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ مشکل حالات سے نکلنے کیلئے محض حکومتی منصوبے ہی کافی نہیں ہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی ایک مہم چلائی جائے تاکہ وسائل کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ ہر کوئی اگر یہ تہیہ کرلے کہ وہ اپنے استعمال میں آنے والے وسائل میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کریگا تو اجتماعی طور پر اس اقدام کے نتائج حیرت انگیز طور پر حوصلہ افزاء سامنے آسکتے ہیں۔
 حکومت اگر سرکاری محکموں کے اخراجات کنٹرول کرے اور عوام بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں تو اس سے وسائل کی بچت کا ہدف حاصل ہوگا۔ ہم میں سے ہر کوئی قدرتی وسائل کا استعمال کر رہا ہے اور اگر کہا جائے کہ ہم اس حوالے سے غفلت اور لا پرواہی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ پانی کا ضیاع ہم کس طرح کرتے ہیں، ایک طرف تو پینے کیلئے صاف پانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو دستیاب نہیں اور دوسری طرف گاڑیاں اور فرش دھونے کیلئے اس کا بے تحاشہ استعمال ہورہا ہے‘سرو س سٹیشنوں پر گاڑیوں کے دھونے کیلئے جو صاف و شفاف پینے کا پانی زمین سے نکال نکال کر استعمال میں لایا جارہا ہے اس سلسلے کو اب روکنا ہوگا اور استعمال شدہ پانی کو بار بار استعمال میں لانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا۔یہ ایک مثال ہے جسے ہر شعبہ زندگی پر پھیلایا جا سکتا ہے‘اور اس کی پیروی تک ہم تمام شعبہ ہائے زندگی میں کفایت شعاری کے ذریعے وسائل کے ضیاع کو روک سکتے ہیں۔