پشاور کے گلی کوچوں اور بازار کی رونقیں قربانی کے جانوروں کی آمدورفت سے مزید بڑھ گئی ہیں تاہم سنت ابراہیمی علیہ السلام کی ادائیگی کے لئے پرعزم ’اہل پشاور‘ کی اکثریت تشویش کا شکار ہے کیونکہ مال مویشیوں کو لاحق متعدی بیماری ’لمپی اسکن (LSD)‘ کے بارے میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے خاصا خوف پیدا کر رکھا ہے۔ محکمہئ لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ خیبرپختونخوا کی جانب سے ’لمپی سکین‘ کے حوالے سے متعدد ہدایات اور وضاحتیں جاری کی گئی ہیں اور اِس بات کا اِعتراف بھی کیا گیا ہے کہ اِس سال گزشتہ برس کے مقابلے ’لمپی اسکن‘ سے متاثرہ جانوروں کی تعداد اگرچہ زیادہ ہے لیکن اِس کا پھیلاؤ زیادہ نہیں اور ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں ’لمپی سکن‘ کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تاہم مال مویشیوں میں اِس طرح کی بیماریاں معمول کی بات ہیں اور اگر صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے تو یہ مرض نہیں پھیلتا۔ لمپی سکن بیماری کے کیسیز خیبرپختونخوا کے مال مویشیوں کی مجموعی تعداد کے ایک فیصد سے بھی کم ہے تاہم سوشل میڈیا کے دور میں افواہیں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور لوگ اِس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ مال مویشی بھی جاندار ہیں‘ جنہیں بیماریاں لگ سکتی ہیں جبکہ موسم گرما کی شدت کا اثر بھی جانوروں پر ہوتا ہے۔ ’لمپی سکن‘ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے ہاں زیادہ تر مقامی نسل کے جانوروں کی قربانی کی غرض سے خریدوفروخت کی جاتی ہے اور یہ مقامی نسل کے جانوروں میں ’لمپی سکن‘ سمیت بہت سی بیماری کے خلاف غیرمعمولی قوت ِمدافعت پائی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا کا محکمہئ لائیو سٹاک ’لمپی سکن‘ پھیلنے کے اِمکان سے آگاہ ہے اور اِسے کنٹرول کرنے کیلئے مویشی منڈیوں سمیت اَضلاع کے داخلی و خارجی راستوں پر ٹیمیں تعینات ہیں تاکہ مویشی منڈیوں میں بیمار جانوروں کے داخلے کو روکا جا سکے۔ اِس سلسلے میں ویکسی نیشن‘ ٹیرنگ ویکٹرز پر عمل درآمد ہو رہا ہے جبکہ مال مویشیوں کی لمپی اسکن کے خلاف مدافعت بڑھانے کے لئے ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے تاہم شہریوں کو چاہئے کہ وہ لمپی اسکن یا کسی بھی بیماری سے خوفزدہ نہ ہوں اور نہ ہی افراتفری کا شکار ہوں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے غیرمستند اور غیرحکومتی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات پر یقین نہ کریں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’لمپی سکن‘ جس جرثومے (وائرس) کی وجہ سے پھیلتا ہے اُس سے متاثرہ جانور عام طور پر ایک دو ہفتوں میں صحت یاب ہو جاتے ہیں لیکن ’لمپی سکن‘ کی وجہ سے جانور دبلے (لاغر) ہوتے ہیں۔ اُن کے دودھ کی پیداوار کم ہو جاتی ہے اور اُن کی کھال ذبح کرنے کے بعد قابل استعمال نہیں رہتی‘ جو مالی نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں مقامی طور پر ’لمپی سکن‘ کے خلاف ویکسی نیشن تیار ہو رہی ہے جو مویشی پال حضرات کو مفت فراہم کی جاتی ہے ایک عام آدمی کیلئے صرف اتنا سمجھ لینا ہی کافی ہوگا کہ ’لمپی سکن‘ سے متاثرہ جانور کا دودھ یا گوشت انسانوں کو متاثر نہیں کر سکتا۔لمپی سکن ’ڈیری صنعت‘ (دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات دہی‘ لسی‘ دیسی گھی‘ پنیر وغیرہ) سے وابستہ مویشی پال افراد اور کسانوں کے لئے یکساں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے جن کی آمدنی کاشتکاری (فصل یا باغبانی) سے کہیں زیادہ اور پرکشش ہے۔ جن کاشتکاروں کیلئے مویشی پالنا ’روزی روٹی‘ کا اہم حصہ ہے وہ لمپی اسکن (وائرل وبا) سے شدید متاثر ہیں اُور چاہتے ہیں کہ زراعت سے وابستہ حکومتی ادارے نہ صرف مال مویشیوں کی دیکھ بھال اُور ویکسی نیشن میں مدد کریں بلکہ ’لمپی سکن‘ کے حوالے سے پائے جانے والے غلط معلومات کی بنا پر پھیلے خوف وہراس کو بھی کم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہمات چلائیں۔ ایک شکایت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت کی جانب سے ’لمپی سکن ویکسی نیشن‘ ہر مویشی پال کو فراہم نہیں کی جارہی جس کی وجہ سے اُنہیں یہ ویکسین بازار سے خریدنی پڑ رہی ہے اُور ایک درجن جانوروں کی ویکسی نیشن پر قریب پانچ ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ لمپی سکن کی وجہ سے رواں برس قربانی کیلئے بڑے جانوروں (گائے‘ بھینس‘ بیل وغیرہ) کی قیمتوں میں کمی آئی ہے کیونکہ ”خوف غالب ہے“ اور اِس خوف کو پھیلانے میں ایک طبقہ مال مویشیوں کے تاجروں کا بھی بتایا جاتا ہے جو پشاور اُور اِس کے مضافات میں قائم مختلف منڈیوں کے حکمران ہیں اُور مخالف منڈیوں سے خریداروں کو دور کرنے کے لئے ’لمپی اسکن‘ جیسے ’شرارتی ہتھکنڈے‘ استعمال کرتے رہے ہیں۔ مویشی پال حضرات اپنے طور پر ’ویکسی نیشن‘ تو کروا لیتے ہیں لیکن اُن کے پاس ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا جسے حاصل کرنا ایک اور مشکل کام ہے۔ کچھ خریدار ایسے بھی ہوتے ہیں جو ویکسی نیشن کا ثبوت چاہتے ہیں لیکن اگر مذکورہ سرٹیفکیٹ نہ ہو تو جانور کی اچھی قیمت نہیں ملتی۔ لمپی سکن سے متاثر جانور کو تیز بخار رہتا ہے۔ شدید بیمار جانور اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے یا وہ کھانا ٹھیک طریقے سے چبا نہیں سکتے اُور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بخار اُور بیماری کے سبب اُن کا کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا اُور دوسری ’لمپی اسکن‘ کا کوئی فوری علاج دستیاب نہیں جبکہ اِس مرض کا علاج مرض کی علامات دیکھ کر کیا جاتا ہے جو ہر جانور کے لئے مختلف ہو سکتا ہے۔ سلوتری مشورہ دیتے ہیں کہ ’لمپی سکن‘ کی روک تھام کے لئے مویشیوں کو خون چوسنے والے کیڑے مکوڑوں (ٹک اور مکھیوں ٌ کے حملے سے بچایا جائے۔ جانوروں کے اردگرد صفائی رکھی جائے اُور جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا جائے۔ زرعی پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاری منافع بخش نہیں رہی اُور اب مویشی پالنا بھی خسارے کا سودا ہے تو اِس صورت ِحال میں جانوروں کی نقل و حرکت ضبط و منظم (کنٹرول) کرنے سے مویشی پال حضرات کو مالی نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مال مویشی صنعت کو بچانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ زرعی شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس تمام صورتحال میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے افواہوں نے ذہنوں کو پراگندہ کر دیا ہے اور لمپی سکن سمیت اس وقت جانوروں کی بیماریوں کے حوالے سے جو سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہوا ہے اس نے صورتحال کو زیادہ خراب کر دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حالات میں مستند معلومات اور ماہرین کی آراء سے استفادہ کیا جائے اور اڑتی خبروں کا سہارا لے کر خوف پھیلانے سے گریز کیا جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر ہر معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے مضر اثرات کا اندازہ لگائے بغیر ہر کوئی اس کا حصہ بن جاتا ہے یہاں یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے قواعد وضوابط کا جائزہ لے کر ازسرنو ترتیب دینا ضروری ہے اور ساتھ ہی مستند معلومات کو افواہوں سے ہٹ کر پہچاننے کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تربیت اور آگاہی بھی ضروری ہے تاکہ ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جا سکے جس سے معاشرے میں مایوسی اور غلط فہمی جنم لیتی ہے اور یہ تمام اقدامات عملی طور پر اٹھائے جائیں اور جس قدر جلد اور موثر انداز میں ان کو سامنے لایا جائے گا نتائج اتنے ہی بہتر ہونگے۔