میرٹ کی بالادستی

محکمہ تعلیم میں اصلاحات کا سلسلہ چند سالوں سے جاری ہے۔ تدریسی سٹاف کی کمی پوری کرنے کیلئے این ٹی ایس کے ذریعے ہزاروں اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کیلئے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایا گیا اور مانیٹرنگ یونٹ بھی قائم کر دیا گیا 80فیصد سے زائد سکولوں کو چاردیواری، صاف پانی، بجلی، فرنیچر اور ٹائلٹس کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں قومی خزانے سے سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار میں بہتری کی گنجائش ہنوز موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر والدین کا اعتماد بڑھا ہے اور بڑے پیمانے پر بچوں کو سرکاری اداروں میں داخل کیا جا رہا ہے تاہم اس رجحان کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جو کمی اور کمزوری موجود ہے اس کو دور کا جائے۔
 زیادہ تر اساتذہ خوب محنت بھی کرتے ہیں اور مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے اساتذہ کی کارکردگی پر نظر بھی رکھی جا رہی ہے باوجود اس کے اگر معیاری نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں اگر آنا ہے تو مزید اقدامات کرنے ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا پہلا زینہ ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قابل ترین لوگوں کو تدریس کے شعبے میں کھپایا جاتا ہے۔کسی تقریب میں پرائمری ٹیچر آجائے تو امریکہ کا صدر بھی اس کے احترام میں کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب تک تعلیم و تدریس اور تحقیق پر توجہ مرکوز رکھی انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی۔
جب سے تعلیم کی اہمیت بھلا دی۔ دنیا میں محکوم و مجبور ہو گئے۔خود کو دوبارہ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کیلئے میرٹ کی بالادستی قائم کرنا ضروری ہے اور تعلیم کے شعبے میں میرٹ کی بالادستی ایک ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تعلیم کا شعبہ ہی تمام شعبہ ہائے زندگی کی ماں ہے اور اسے درست کر کے ہی اصل نتائج سامنے آسکتے ہیں ہمارے معاشرے میں جتنے بھی لوگ مختلف شعبوں میں سرگرم ہے وہ تعلیمی اداروں سے نکل کر عملی زندگی میں سرگرم ہے اور انہوں نے اپنے تعلیمی کیرئیر کے دوران جو سیکھا اسی پر عمل پیرا ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فعال اور موثر تعلیمی نظام ہی تمام مسائل کا حل ہے جس میں عصری تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہو اور حالات کی مناسبت سے افرادی قوت کی تربیت کا خصوصی انتظام موجود ہو ہم ملک کو نظریاتی اور معاشی طور پر ایک مستحکم قلعہ تب ہی بنا سکتے ہیں۔
 جب ہم تعلیم کے شعبے کو اولین ترجیح قرار دیں اور اس پر توجہ مرکوز کریں جیسا کہ ترقیافتہ ممالک میں کیا جا رہا ہے جاپان‘ چین اور سنگا پور میں جو ترقی کی ہے وہ تعلیمی نظام کو مستحکم اور وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے ذریعے کی ہے‘اب بھی وقت ہے کہ اس دیرینہ مسئلے کی طرف توجہ دی جائے اور اصلاحات کے لئے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ ترقی اور ارتقاء کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور ادارے تب ہی کمال کو پہنچتے ہیں جب ان کی ترقی میں تسلسل موجود ہو اور ایک خاص مربوط نظام کے تحت اس کی مانیٹرنگ کی جارہی ہو۔