حج ِاکبر مبارک 

کورونا وبا کی وجہ سے اجتماعی حج پر پابندی عائد تھی‘ جسے مشروط بحال کرتے ہوئے 2 سال وقفے کے بعد‘ آج بروز جمعۃ المبارک (آٹھ جولائی) دس لاکھ عازمین منی میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سے ’رکن اعظم‘ادا کریں گے۔ عرفات کا یہ اجتماع امت مسلمہ کا وہ عالمی اجتماع ہے جہاں وہ اپنے مقام و مقصد کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ وحدت کو مضبوط اور مساوات کی کڑیوں کو قوی کرتے ہیں‘ یہ اہم ترین دن اور مقدس مقام اُس منظر کی یاد دہانی ہے کہ عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے ایک عہد لیا تھا جس کا ذکر قرآن کی ساتویں سورۃ الاعراف کی 172ویں آیت میں کیا گیا ہے ”اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی اُن سے پوچھا گیا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ آپ ہی پروردگار ہیں)۔ یہ اقرار اس لئے کرایا تھا تاکہ قیامت کے دن (کوئی یہ نہ کہے یا) کہنے لگے کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔“
 مشکوٰۃ المصابیح میں سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مذکورہ عہد اسی سرزمین پر ہوا ہوگا اور اِس کے لئے میدان عرفات کا نام لیا جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہی عظیم دن ہمیں یوم حشر رب حضور پیشی کی فکری اور عملی تربیت بھی مہیا کرتا ہے کہ کچھ اسی طرح سے مخلوق حشر میں اپنے اعمال کی جواہدہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگی۔ ایک اور روایت کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حشر بھی اسی مقام پر ہوگا۔ قرآن وہ منظر کئی مقامات پر واضح انداز میں پیش کرتا ہے اُن میں سے ایک یہاں نقل ہے‘ فرمایا ”پس یہ ضرور ہوکر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے تھے اور رسولوں سے بھی پوچھیں گے(کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کردیں گے‘ آخر ہم کہیں غائب تو نہ تھے (سورہئ اعراف)۔“
 اس عظیم موقع پر ہم یہ عہد بھی ضروری ہے کہ آئندہ زندگی ایک مطیع فرمان مسلم اور اللہ کے دین کے خادم کی طرح بسر کریں گے اس لئے کہ حج کے بعد نافرمانی یا گناہ حج کے حقیقی فائدے اور اثرات کو ضائع کردینے کے مترادف ہوگا۔ درحقیقت حج ”جامع عبادت“ ہے جو مختلف عبادات کا مجموعہ ہے۔ نماز کا آغاز اگر نیت کی درستی‘ قبلے کے استقبال اور بدن کی طہارت سے ہوتا ہے اور اِس کی روح ذکرِ الٰہی ہے‘ تو حج پہلے ہی مرحلے سے ان سب عبادات کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف رخ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر اور پھر اس کا طواف اور اس کی طرف سجدے ہی سجدے‘ احرام‘ جسم اور روح کی طہارت اور حج کی نیت سے لے کر طواف ِوداع تک ذکر ہی ذکر۔ نماز اگر فحش اور منکرات سے روکنے کا ہتھیار ہے‘ تو احرام بھی فحش اور منکرات کے باب میں ایک حصار ہے۔ حج کے پورے عمل کو خواہشِ نفس سے پاک کرنا اور گناہوں سے بچانا‘ آدابِ حج کا حصہ ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے‘ جو ایک طرف حب ِدنیا اور حب ِدولت سے انسان کو بچاتی ہے تو دوسری طرف معاشرے سے بھوک اور غربت کو مٹانے اور معاشی عدم مساوات کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
 حج میں بھی انسان کو کثیرمالی قربانی کرنا پڑتی ہے۔ صرف زاد ِراہ اور قربانی ہی کیلئے نہیں بلکہ ایک عرصے کے لئے ترک ِمعاش اور اہلِ خاندان کیلئے معاش کے انتظام کی شکل میں۔ حج کا لباس (ڈریس کوڈ) ”احرام“ ہے جو پوری امت کے لئے مساوات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے اور امیر غریب‘ بادشاہ فقیر‘ سب ایک ہی لباس میں ہوتے ہیں۔ روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا‘ ضبط ِنفس کی تربیت‘ جسمانی مشقت انگیزی کرنے کے لئے تیاری‘ تعلقات ِزن و شو سے احتراز (صرف دن ہی میں نہیں بلکہ حج کی راتوں میں بھی)‘ بے آرامی اور ذکر کی کثرت کی فضا بنانا ہے۔ حج میں یہ سب اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں۔”خانہ کعبہ اس دنیا میں عرشِ الٰہی کا سایہ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا نقطہ قدم ہے۔ یہ وہ منبع ہے‘ جہاں سے حق پرستی کا چشمہ اُبلا اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے‘ جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔
 یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے‘ جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں‘ جو مختلف ملکوں اور اقلیتوں میں بستے ہیں۔ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ مختلف طرز کے لباس پہنتے ہیں۔ مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں مگر یہ سب کے سب باوجود فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے بھی ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت‘ قومیت‘ تمدن و معاشرت‘ رنگ روپ اور دیگر سبھی (جملہ) امتیازات کو مٹا کر‘ ایک ہی وطن‘ ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیم علیہ السلام)‘ ایک ہی تمدن و معاشرت (یعنی ملت ِابراہیمی) اور ایک ہی زبان (یعنی عربی) میں متحد ہوجاتے ہیں‘ کیا یہ اجتماعیت قابل ذکر حقیقت نہیں اور کیا اِس اجتماعیت سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے؟آج یہ خواب دیکھا جا رہا ہے کہ قومیت اُور وطنیت (قوم پرستی) کی تنگ گلیوں سے نکل کر انسانی برادری وسیع علاقے میں داخل ہو۔
 ملت ِابراہیمی کی ابتدائی دعوت اور ملت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجدیدی پکار نے سینکڑوں ہزاروں برس پہلے اس خواب کو دیکھا اور دنیا کے سامنے اس کی تعبیر پیش کی۔ لوگ آج تمام دنیا کے لئے واحد زبان کے ایجاد و کوشش میں مصروف ہیں مگر خانہ کعبہ کی مرکزیت کے فیصلے نے آلِ ابراہیم علیہ السلام کے لئے مدت دراز سے اس مشکل کو حل کردیا ہے۔ لوگ آج دنیا کی قوموں میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے ورلڈ کانفرنس (عالم گیر مجلس) کے انعقاد کر رہے ہیں لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘ ساڑھے چودہ صدیوں سے یہ مجلس ہر سال بصورت حج قائم ہو رہی ہے اور اسلام کے علم‘ تمدن‘ مذہب اور اخلاق کی وحدت کی علم بردار ہے۔   لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْک۔ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ۔ إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَۃَ، لَکَ وَالْمُلْکَ۔ لاَ شَرِیکَ لَکَ۔