شور بڑھتا جارہا ہے بھیڑ بھی بہت بڑھ گئی ہے سڑکوں پر ٹریفک کا ایک سیلاب بہہ رہا ہے سیانے کہتے ہیں کہ جب مہنگائی زیادہ ہوتی ہے تو عام لوگوں کے رہن سہن میں بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے، یہ ایک عجیب پیرا ڈوکس (قول محال)ہے مگر سچ ہے ویسے بھی ہم قدیم داستانوں کے زمانے سے بہت آ گے آ گئے ہیں اب یار لوگ چھلنی میں پانی لانے کا ہنر سیکھ گئے ہیں، اپنے پچپن میں جب بڑوں سے مزے مزے کی کہانیاں سنتے سنتے آنکھیں بوجھل ہو جاتیں اور کہانی سنانے والے کی آواز دور سے آتی محسوس ہوتی اور پھر ہم بے خبر سو جاتے۔ کبھی کبھی جب رات کی سنی ہوئی کہانی یاد آتی جس کا اختتام ہماری نیند میں کہیں کھو جاتا اور ہم کہانی سننے کی فرمائش کرتے تو بڑے بزرگ کہتے نہیں اب نہیں کیونکہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی کل کی بات ہے‘ اب مسافر راستہ نہیں بھولتے‘اول تو نقشہ(میپ) ساتھ لئے پھرتے تھے، خصوصاً قدیم داستانوں میں ایسے نقشے کسی خزانے کے ہوا کرتے معلوم نہیں کسی کے ہاتھ وہ خزانے لگے یا نہیں، مگر ان نقشوں کو بہت ”لکا چھپا“ کے گھروں میں رکھا جاتا اور خاندان کے کئی نوجوان اس نامعلوم خزانہ کی تلاش میں نکل پڑتے اور عمریں گال کر مایوس لوٹ آتے، بیشر کے ساتھ تو یہ بھی ہوا کہ جب قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے سامان میں سرے سے وہ نقشہ ہی غائب ہے‘ میں نے بھی کبھی کہا ہوا ہے کہ
سنسان راستہ تھا، اندھیرا تھا، دشت تھا
ہاتھوں سے کوئی لے اڑا نقشہ، میں رو پڑا
دنیا بھر کے ادب کا یہ پسندیدہ موضوع ہے اور نوبل انعام یافتہ برازیلین ناول نگار پاؤلو کوئیلو کے اسی موضوع پر لکھے گئے معروف اور مقبول ناول الکیمسٹ کا دنیا بھر کی زبانوں میں کئی کئی ترجمے ہو کر اسے زندگی سے مایوس کئی لوگوں کو زندگی کی طرف واپس لانے میں اہم کردار کا حامل ناول قرار دیا گیا ہے لیکن اب زمانہ اور ہے اور اب تو خیر سے گوگل نے یہ کام بھی اپنے ذمہ لے لیا ہے، ایک لمحہ کو اگر گوگل کے اس نیوی گیشن(سمت شناسی) کے حیران کن نظام پر غور کریں تو انسان الجھ کر رہ جاتا ہے اتنی بڑی دنیا اتنی بہت بستیاں اور پھر ہر قصبے شہر میں سڑکوں اور گلی گلیاروں کا بے ترتیب سا جال بچھا ہوا ہے مگر مجال ہے جو کبھی گوگل آپ کو مایوس کرتا ہو، یا کبھی معذرت کی ہو صرف لوکیشن کی نشاندہی نہیں ہوتی بلکہ اور فوری طور پر ضروری معلومات بھی بن مانگے مل جاتی ہیں، جیسے آپ کسی ادارے یا آفس کی لوکیشن سرچ کریں تو جہاں آپ کا راستہ سیدھا کر دیا جاتا ہے وقت بتا دیا جاتا کہ آپ اتنی دیر میں پہنچ جائیں گے اور ٹریفک کی صورت حال بھی بتا دی جاتی ہے کہ کن اطراف میں ٹریفک زیادہ ہے، وہاں یہ اضافی معلومات بھی بہم پہنچائی جاتی ہیں کہ جب تک آپ اپنی منزل پر پہنچیں گے تب تک وہ دفتر یا مارکیٹ بند ہو چکی ہو گی‘ اس کے باوجودکچھ دوستوں کو کبھی کبھی شکایت پیدا ہوتی ہے کہ گوگل سرچ سے ہماری صحیح رہنمائی نہیں کی گئی مگر بعد میں معلوم ہو تا ہے کہ غلط لوکیشن فیڈ کر دی گئی تھی ابھی پچھلے ہفتے ہی خود مجھے بھی ایسا ہی تجربہ ہوا جب میں معروف شاعر ڈاکٹر زبیر شاہ کے ساتھ ایک مشاعرہ کیلئے پشاور کی نئی بستی حیات آباد جا رہا تھا مشاعرہ گاہ کی گوگل لو کیشن اردو پشتو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر نہار اللہ نے بھیج دی تھی اور اسی کے مطابق ہم جارہے تھے زبیر شاہ ہدایات کے مطابق گلیاں کوچے پاٹ رہے تھے مگر ہر موڑ پر کہتے یہ راستہ ٹھیک نہیں لگتا مگر کوئی اور چارہ بھی نہ تھا‘سحر زدہ سے گوگل کی نسوانی آواز کی ہدایات پر اس وقت تک عمل کرتے رہے جب تک اس آواز نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کی منزل آگئی‘ہم دونوں نے منزل کی طرف دیکھنے سے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ہم ایک رہائشی علاقے میں ایک مکان کے سامنے کھڑے تھے، پھر مجبوراً ڈاکٹر نہار کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ مشاعرہ گاہ سے کوئی بارہ منٹ دور کسی اور سمت میں کھڑے ہیں، بارہ منٹ کا مطلب دس بارہ کلو میٹر آگے نکل آئے تھے، انہوں ایک بار پھر لو کیشن بھیجی اور ہم صحیح جگہ پہنچ کر بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنا نہیں بھولے تھے، کیونکہ ہم اس راستے سے ہو کر آگے نکل گئے تھے۔ مشاعرہ گاہ پہنچ کر ڈاکٹر نہا رسے معنی خیز انداز میں کہا کہ آپ نے ہمیں شاید وہ لو کیشن بھیجی تھی جہاں اکثر آپ جاتے ہوں گے تو ہنس کر کہنے لگے خیر اب میں اتنا پاگل بھی نہیں کہ جہاں میں جاتا ہوں اس کا پتہ شاعر دوستوں کو دوں، مجھے غالب یاد آگئے اور ان کے ایک معروف شعر کا مصرع زبان پر آ گیا ”میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے“ اور بات آگے نہ بڑھی جلد ہی مجھے ابتسام علی سید کی کال آئی،کہنے لگا ”جو لوکیشن آپ نے بھیجی تھی اس کے مطابق میں ایک گھر کے پاس پہنچ گیا ہوں جو کسی زاویے سے یونیورسٹی نہیں لگ رہا، میں نے اسے اپنے موبائل سے کرنٹ لوکیشن بھیجی اور اس وقت میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر نہار کی بھیجی لوکیشن پر دو مختلف لوگ نہیں بھٹک سکتے یقینا اس راستے سے گزرتے ہوئے کرنٹ لوکیشن سینڈ ہو گئی گویا نئی دنیا ٹیکنالوجی کی دنیا ہے مگر آ نکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں،اندازہ کی ذرا سی غلطی کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے ایک زمانے تھا کہ کسی سے کوئی پتہ پو چھا جاتا تو صحیح نشاندہی کرنا ایک اہم فریضہ سمجھا جاتا تھا بلکہ دیہات میں تو پتہ بتانے والا ا کثر ساتھ ہی ہو لیتا، کیونکہ تب سب لوگ ایک دوجے سے جڑے ہوئے تھے شہروں میں فاصلے کی وجہ سے ساتھ جانا تو ممکن نہ تھا مگر درست رہنمائی کی جاتی تھی، اور اب تو ایک ہی گلی میں رہنے والے بھی ایک دوسرے سے بیگانہ ہو گئے، اب پرانے شہروں کے رہنے والوں کا دل شہروں کی تنک گلیوں اور تاریک مکانوں میں نہیں لگتا۔ اس لئے شہر وں کے باہر نئے شہر بنتے جا رہے ہیں کبھی جانا ہو تو نئی خوبصورت آبادیوں کو دیکھ یار لوگ دنگ رہ جاتے ہیں، سڑکو ں پر بھی ٹریفک کے سیلاب میں چم چماتی کاروں کے سیلاب میں سے گزر کر جانے کے لئے کتنی کتنی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے، شاید ہی کوئی ہو جس کے ہاتھ میں اچھے سے اچھا اور مہنگے سے مہنگا سیل فون نہ ہو کسی ریستوران جاؤ تو خالی میز کے لئے کتنا کتنا انتظار کر نا پڑتا ہے، لیکن کیا ہرج ہے اگر کہہ دیا جائے مہنگائی بڑھ گئی،سانس لینا محال ہو گیا ہے میں نے کہا نا کہ سیانے کہتے ہیں کہ جب مہنگائی زیادہ ہوتی ہے تو عام لوگوں کے رہن سہن میں بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے، اور ”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز“ کی صدائیں دنیا کے بازار میں چاروں اور گونجنے لگتی ہیں‘کبھی کہا تھا
ابھی بازار ہے مل جائیں گے کچھ دام بھی اچھے
محبت نام کی ایک شے پرانی بیچ آتے ہیں