سیاسی قیادت کی غیر سنجیدگی اور حکومتوں کی غفلت کی بدولت وطن عزیز تیز ی سے آبی بحرا ن کی طرف بڑھ رہاہے غیر سنجیدگی کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ چارعشروں کے دوران ملک میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بن سکا اوراگر دیکھاجائے تو اس وقت ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لئے صرف تین بڑے ڈیم ہیں۔ منگلا 1967، تربیلا 1978 ء اور چشمہ 1971ء میں مکمل ہوا۔ 1960 ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے وقت پاکستان کے دریاؤں میں 117 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا تھا اور اب ہمارے دریاؤں میں 80 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے اور اس میں سے بھی زیادہ تر ہم ضائع کر دیتے ہیں‘دنیا کے اکثر ممالک اپنے دریاؤں میں آنیوالے پانی کا چالیس فیصد تک ذخیرہ کر لیتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے دریاؤں میں آنیوالے پانی کا نو تا دس فیصد ذخیرہ کرتا ہے‘ مختلف قدرتی ذرائع سے ہر برس پاکستان میں 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے ہم صرف 13.4 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال یا ذخیرہ کرتے ہیں باقی تمام پانی ضائع ہو جاتا ہے‘ بھارت جو ڈیم بنا رہا ہے ان میں سے بہت سے بلاشبہ غیر قانونی ہیں، لیکن ایک تلخ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بھارت نے ہمارے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں کہ ہم ڈیم نہ بنائیں؟ یہ ہماری ذمہ داری تھی، اور ہے کہ ہم اپنی موجودہ اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق ڈیم بنائیں۔ پنجاب میں پانی کی ضرورت ساٹھ ہزار کیوسک اور سپلائی انتیس ہزار کیوسک ہے، سندھ میں ضرورت پینتالیس اور سپلائی 22 ہزار کیوسک ہے۔ اتنے کم پانی کے ساتھ ملک کی ضروریات کے مطابق گندم کی پیداوار نا ممکن ہو گی۔اقوام متحدہ اور ”ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ“ کی رپورٹوں کے مطابق 2025ء میں پاکستان میں فی کس 500 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہو گا جبکہ قحط اور بھوک کیلئے مشہور ملک ”صومالیہ“ میں بھی فی کس 1500کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے ممالک کی فہرست، جن میں مستقبل قریب میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے میں تیسرے نمبر پر ہے‘ اسی طرح اقوام متحدہ کا ترقیاتی ادارہ ہو یا ”پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز“، سب کئی دہائیوں سے ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ آنیوالے برسوں میں پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ہو جائے گا۔ مگر نہ تو کسی حکومت پر آج تک کوئی اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہمارے عوام اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھ رہے ہیں۔ پانی کے ذخیرہ کرنے کی کافی صلاحیت نہ ہونے کے علاوہ جو عوامل صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہے ہیں ان میں پانی کے استعمال کے بارے میں انتظامی مسائل، آبادی میں ہوشربا اضافہ، آبادی کا شہروں کی جانب منتقل ہونا اور عوام میں پانی ضائع کرنے کی عادت اہم ہیں۔ حکومت، بلکہ موجودہ حالات میں ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس اہم ترین مسئلہ کے حل کے لئے جنگی بنیادوں پر فوری عملی اقدامات کا آغاز کرے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے متعلقہ ادارے اور سیاستدان اس حقیقت کو قبول کر کے اسکے حل کے لئے ذاتی سیاسی مفادات سے ہٹ کر سنجیدہ کوشش اور عملی اقدامات کریں۔ خطرہ جہاں تک آگیا ہے، اب یہ صرف حکومت نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں اور پارٹیوں کا مشترکہ فرض ہے کیونکہ یہ زندگی موت اور ریاست پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے لیکن یہ سب کرے گا کون؟ ہماری ریاست اور ادارے جانے کہاں ہیں اور سیاستدانوں کو کرسی کی لڑائی سے فرصت ملے گی تو ان کا دھیان اس جانب ہو گا۔ انکی واحد ترجیح شاید اقتدار ہے‘ پاکستان کی بقاء اور عوام کی زندگی نہیں۔ خداخدا کرکے بھاشا دیامر ڈیم اور داسو ڈیموں پر کام شروع ہواہے اب دیکھئے کہ کتنے عرصہ میں پایہ تکمیل کوپہنچتاہے ہمارے عظیم ترین دوست چین نے اپنے طویل زرددریاکے کناروں پر ہر سال کی طغیانی سے دیہی علاقوں کی تباہی کو زور آور سیلابی پانی کی تیز تر واٹر مینجمنٹ کرکے بجلی بنانے اور آبپاشی کے لئے چھوٹے چھوٹے سینکڑوں ڈیم بنا ددیئے دریا کے دونوں طویل کنارے فروٹ باسکٹس، ویجی ٹیبل بیلٹس اور خوشحال مکمل الیکٹری فائیڈ دیہی علاقوں میں تبدیل ہوگئے۔ اسی کی برکت سے چینی سیب، ناشپاتی، انگور، لہسن، ادرک اور کتنی ہی سستی چینی اشیائے خور و نوش کی شکل میں پاکستان بھی پہنچتی ہیں‘ ہمارے ہاں ہر حکومت نے ”واٹر مینجمنٹ“ کے خلاف مجرمانہ مزاحمت کی یا اس سے منہ موڑے رکھا جبکہ ہمارے پاس واپڈا جیسا ملک گیر منظم اور ماہر ادارہ موجود تھا جو منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے بجلی پیدا کرنے اور توسیعِ کاشت کے عظیم منصوبوں کی کامیاب تکمیل اور انہیں جاری و ساری رکھنے کے طویل تجربے اور مہارت کا حامل تھا۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا میں پانی کے ذخائر کا تناسب صرف 60فیصد رہ گیا ہے جس کے لئے سنجیدگی سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اگلے پندرہ سال میں پانی کے عالمی بحرا ن کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں مستقبل میں پانی کم یاب ہوسکتا ہے‘ماہرین کے مطابق پاکستان میں دستیاب پانی کا 90 فیصد زرعی شعبے کودیا جاتا ہے جس میں سے 80فیصد پانی آبپاشی کے ناقص نظام اور پانی کی تقسیم میں نقائص کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے‘ہماری زراعت کے لئے آبپاشی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہریں ہیں۔انڈس واٹر سسٹم4بڑے آبی ذخائر، 23 بیراجوں اورہیڈ ورکس، 12رابطہ نہروں،45بڑی نہروں اور 1لاکھ7ہزار کھالوں پر مشتمل ہے جس کا تخمینہ تقریباً159ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے اس پورے نظام کے تحت 14.2ملین ہیکٹر اسی طرح ملک میں دستیاب پانی کااندازہ 194ارب کیوبک میٹرہے جس میں سے صرف 68فیصد ہی نہروں کے ذریعہ استعمال کرنے کے قابل بنایاگیاہے جو تقریباً 131ارب کیوبک میٹر ہے جبکہ باقی ماندہ میں سے پچیس فیصد یعنی 48ارب کیوبک میٹر پانی سمندر کی نذرہوجاتاہے نہری نظام کے نقائص کی وجہ سے سات فیصد سے زیادہ پانی یعنی پندرہ ارب کیوبک میٹر پانی ضائع ہوتاہے ترقی یافتہ ممالک زرعی شعبہ میں پانی کے کم اور موثر استعمال کو یقینی بنا کر جہاں اضافی پیداوار حاصل کر رہے ہیں وہیں دستیاب پانی کو عام آبادی اور دیگر ضروریات کے لئے بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن سمندری پانی کو اس کی شوریت کی وجہ سے فصلوں میں براہ راست استعمال نہیں کیا جاسکتا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں سے آج بھی انگریز کے وقت کا تشکیل کردہ نظام آبپاشی اپنی خستہ حالی میں چل رہا ہے۔بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں اور مستقبل کی آبی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہم نے تاحال کوئی خاص اقدامات نہیں کئے۔آبپاشی کے اس فرسودہ نظام کی تشکیل نو کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانا وقت کی اولین ضرورت ہے بصورت دیگر آبی بحران کی دستک ہرگذرتے دن کے ساتھ تیز سے تیز ترہوتی چلی جائے گی اس سلسلہ میں اعلیٰ ترین سطح سے لے کرنچلی ترین سطح تک موثر اقدامات ہی ہمیں مستقبل میں بدترین آبی بحران سے بچاسکتے ہیں۔