افراط زر (مہنگائی) اور شرح سود (مارک اپ) کے درمیان تعلق سے متعلق معروف نظریہ پروفیسر گارڈنر ایکلی (Prof Gardner Ackley) کا ہے جن کے مطابق ”افراط زر صرف طلب اور لاگت جیسے عوامل کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ طلب کی کمی اور لاگت میں اضافے کے محرکات کا مجموعہ ہوتا ہے“ مہنگائی آگ کی صورت ِتمثیل ہے جس کا آلاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اِس سے جھلسے عوام کو قومی مالیاتی ادارے (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) سے توقعات ہیں کہ یہ ’سماجی اقتصادیات‘ کو پگھلانے والی ’افراط زر (مہنگائی)‘ کی آگ پر چند قطرے پانی ڈالنے کی بجائے اِس آگ کو بجھانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا لیکن حال ہی میں شرح سود میں 125 بیسس پوائنٹ کا اضافہ کیا گیا ہے جو مہنگائی کا علاج نہیں بلکہ اِس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا ضرورت معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے کی ہے اِس میں شرح سود کے اضافے سے مزید بوجھ ڈالنے کی نہیں۔ اسٹیٹ بینک نے مالیاتی پالیسی بیان میں کئی ایسے مصنوعی اقدامات بھی کئے ہیں‘ جن سے خاطرخواہ بہتری کی اُمید تو رکھی جا سکتی ہے لیکن ماضی میں اِن سے خاطرخواہ بہتری کے فوائد حاصل نہیں ہوئے جیسا کہ برآمدی ری فنانس اور طویل مدتی فنانس ریٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے مالیاتی پالیسی ٹرانسمیشن کو مستحکم کرنے کیلئے ای ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف قرضوں پر شرح سود کو پالیسی ریٹ سے منسلک کیا جبکہ پالیسی ریٹ کے مقابلے میں پانچ سو بیسس پوائنٹس کی رعایت کی پیشکش کرکے برآمدات کی حوصلہ افزائی جاری رکھی جائے گی لیکن توانائی کے بحران اور مہنگائی کی وجہ سے پیداواری اخراجات جب بڑھیں گے تو پاکستان سے برآمدات کیا ہوں گی یہ واضح نہیں ہے۔ اِسی طرح دوسو سے ڈھائی سو بی پی ایس میں بڑے اضافے سے روپے بمقابلہ ڈالر کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ ایک مضبوط روپے کا مطلب مہنگی اور کم منافع بخش برآمدات ہیں۔ اِن مالیاتی اقدامات سے برآمد کنندگان کو فائدہ ہوگا جو قومی بینکوں سے قرض لے کر اپنے کاروبار پھیلاتے ہیں۔ افراط زر سے کچلے ہوئے لوگوں کو سخت گیر قومی مالیاتی نظم و ضبط کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح صارفین کیلئے قیمتیں زمین پر واپس آ سکتی ہیں۔ مرکزی بینک نے مستقبل میں افراط زر کے اعداد و شمار پر منحصر شرح میں مزید اضافے کا بھی اشارہ دیا ہے اور کہا ہے کہ مالی سال (دوہزارچوبیس) کے آخر تک پانچ سے سات فیصد ہدف کی حد تک تیزی سے گرنے سے پہلے ہیڈ لائن افراط زر رواں مالی سال دوہزارتیئس کے بیشتر عرصے تک موجودہ سطح کے آس پاس بلند رہنے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 2023ء افراط زر (مہنگائی) کا سال ہوگا کیونکہ مصلحت پسند مرکزی بینک کی جانب سے ایک ہنگامی ردعمل کی بجائے افراط زر کم کرنے کی نہایت ہی کم کوششیں ہوئی ہیں‘ پاکستان میں وہ سبھی اقتصادی اصلاحات اور اقتصادی ترقی کے نظریات ناکام دکھائی دیتے ہیں جن کا دیگر ممالک استعمال کرتے ہوئے اپنے مالیاتی امور کی اصلاح کر چکے ہیں۔رواں سال اسٹیٹ بینک حکام نے ملک کی مالیاتی پالیسی کی سمت طے کرنے کیلئے چار بار اصلاحات کا اعلان کیا۔ روپے کی قدر میں کمی اور مقامی طلب پر بڑھتی ہوئی افراط زر کے دباؤ کی توقع کرتے ہوئے‘ اسٹیٹ بینک نے اس سال (ستمبر دوہزاراکیس سے 675بی پی ایس) میں مجموعی طور پر 400بی پی ایس یعنی شرح سود میں اضافہ کیا‘ جس سے 125بی پی ایس کے موجودہ اضافے سے قبل شرح سود 13فیصد تھی۔ شرح سود میں اضافہ ’معاشی جھٹکے‘ کو برداشت کرنے کے لئے مالیاتی ایڈجسٹمنٹ یعنی آسان فیصلہ ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد کی دنیا انتہائی غیر یقینی اور مشکل ہو رہی ہے۔ اس سے معاشی سرگرمیوں کو اعتدال پر رکھنے‘ افراط زر کی توقعات ختم کرنے‘ افراط زر کو روکنے اور طویل مدتی منصوبہ بندی ہے جس میں بلند افراط زر اور ریکارڈ درآمدات حاصل کرنے کے تناظر میں روپے کی قدر کو مستحکم بنانا ہے اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ اِن اقدامات کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوں گے۔ پاکستان کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ مہنگائی مسلسل رہتی ہے اور اِسے کم کرنے کی کوششیں (اصلاحات) بھی خاطرخواہ کامیاب نہیں ہوتیں۔ قیمتوں کا دباؤ‘ جزوی طور پر درآمدی افراط زر کی وجہ سے ہے اور جزوی طور پر روپے کی قدر میں کمی کے باعث ہے یقینا پالیسی سازوں کیلئے یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے‘۔