قربانی‘ مفاہیم‘ مقاصد و تقاضے

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا ”قربانی کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ (سنت) ہے۔ پوچھا گیا کہ اُن کے طریقے کو انجام دینے میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی اور جس جانور کے بدن پر بالوں کی بجائے اون ہوگی تو ہر ایک بال کے عوض میں بھی ایک نیکی ملے گی (بحوالہ مشکوۃ شریف)۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل مدینہ منورہ میں دس برس قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی (مشکوٰۃ شریف)۔ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ”قربانی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں (ترمذی‘ ابن ماجہ)۔ مذکورہ 3 احادیث سے معلوم ہوا کہ 1: قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کو یاد رکھنے کی مشق ہے۔ 2: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور میں قربانی کے ذریعے اظہار بندگی باقاعدگی سے کرتے تھے اور 3: مخصوص ایام میں قربانی سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی دوسرا عمل محبوب نہیں۔
عید قربان یا عید الاضحی (10ذوالحجہ) منائی جاتی ہے اور یہ عمل (قربانی) حج کے واجب ارکان میں شامل ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ ”حضرت علی المرتضیٰؓ سال میں چار راتوں میں خصوصاً شب بیداری پسند فرماتے۔ ماہ رجب کی پہلی رات‘ ماہ شعبان کی پندرہویں رات‘ عید فطر کی رات اور عید قربان کی رات۔“ ذہن نشین رہے کہ شب بیداری سے مراد نماز عشا کے بعد اور نماز فجر سے پہلے تک جاگ کر پوری رات عبادات میں مشغول رہنا ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا ”نظر بہ غفلت ِ اہل جہاں ہوا ظاہر …… کہ عید ِخلق پہ حیراں ہے چشم قربانی۔“ مقام فکر ہے کہ قربانی کے مقاصد و مفاہیم بہرصورت پیش نظر رہنے چاہیئں۔ قربانی ’سنت ِابراہیمیؑ‘ کی تقلید میں خالصتاً اللہ تعالیٰ کیلئے اور ظاہری نمود و نمائش سے پاک و صاف ہونی چاہئے لیکن شعوری یا لاشعوری طور پر جب قربانی کے ذریعے اللہ کی بجائے بندوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی یعنی اللہ کی بجائے بندوں کی تعریف اور پسندیدگی کی زیادہ فکر (چاہ) ہوگی تو قربانی کا یہی عظیم‘ لازم و ملزوم عمل ریاکاری (دکھاوے) میں بدل جاتا ہے جبکہ لازم ہے کہ اس طرح کی باتوں سے اجتناب برتا جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ بڑوں سے بچوں میں بھی یہ مقابلے بازی منتقل ہو جاتی ہے۔
 بچے عموماً قربانی کے جانوروں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ انہیں گھماتے پھراتے اور دوستوں کو دکھاتے ہیں۔ ان میں بھی مقابلے بازی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ لازم ہے کہ بچوں میں اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ قربانی خالصتاً اللہ پاک کو خوش کرنے کی خاطر ہونی چاہئے۔ اسی طرح جانور کی قربانی کے عمل میں گوشت کی تقسیم بھی ایک نہایت اہم مرحلہ ہے۔ اسلام میں گوشت کی تقسیم کا طریق کار نہایت واضح ہے۔ گوشت کو تین برابر حصوں میں بانٹنے کا حکم ہے۔ ایک حصہ قربانی کرنے والا اپنے گھر کے لئے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کیلئے مخصوص ہے جبکہ تیسرا حصہ مستحقین اور ضرورت مندوں کو دینے کا حکم ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس معاملے میں بھی ہم دنیا داری میں الجھے رہتے ہیں۔ بعض اوقات طمع اور لالچ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گوشت کا عمدہ حصہ امیر رشتہ داروں یا تعلق داروں کو بھجوایا جاتا ہے۔ خود اپنے لئے بھی ڈھیروں ڈھیر گوشت ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ کئی کئی ماہ تک فریزر میں یہ گوشت پڑا رہتا ہے۔کئی برس سے باقاعدہ یہ اعداد و شمارسامنے آ رہے ہیں کہ عید الاضحی کے قریب آتے ہی جانوروں کے ساتھ ڈیپ فریزروں کی فروخت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ 
گوشت کی تقسیم میں غریبوں مسکینوں کی باری بہت بعد میں آتی ہے۔ صاحب استطاعت سارا سال ہی گائے اور بکروں کا گوشت کھاتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میں سے ہر صاحب استطاعت اپنے حصے کا گوشت بھی مستحقین میں بانٹ دیں یعنی ایسوں میں جنہیں گوشت صرف عید کے عید ہی کھانا نصیب ہوتا ہے۔ حدیث شریف ہے کہ عیدالاضحی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کو جانور قربان کرنے سے زیادہ کوئی دوسرا عمل پسند نہیں اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی معمول رہا کہ آپ نہایت ہی اہتمام سے نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنی اُمت اور اپنی اہل بیت کی طرف سے بھی قربانی ادا فرماتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمیشہ سادہ رہی۔ اکثر گھر میں کھانے پینے کی کوئی شے موجود نہیں ہوتی تھی‘ اگر کچھ ہوتا بھی تو وہ بانٹ دیا کرتے تھے اور سخاوت اِس قدر تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار اکثر بھوک سے رہتے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ روشن پہلو بھی اہل اسلام کیلئے لائق توجہ اور تقلید ہونا چاہئے کہ آپؐ کی ساری حیات مبارکہ دنیاوی مال و دولت کے انبار جمع کرنے میں نہیں بلکہ عبادات اور سخاوت میں بسر ہوئی اور باوجود مال و اسباب کی بظاہر قلت و کمی کے بھی آپؐ نہایت ہی رغبت‘ اہتمام و باقاعدگی سے ہر سال قربانی فرمایا کرتے تھے لہٰذا عیدالاضحی کے مبارک ایام (دس سے بارہ ذی الحجہ) سنت ِابراہیمی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقلید میں قربانی کرنی چاہئے کیونکہ (احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں دیکھا جائے تو) مذکورہ عیدالاضحیٰ کے ایام میں‘ اللہ تعالیٰ کو قربانی (حلال مال مویشیوں کے خون بہانے) سے زیادہ کوئی دوسرا عمل محبوب نہیں ہے۔ ”تقبل اللہ منا و منکم صالح الأعمال (ترجمہ) اللہ تعالیٰ میرے اور آپ سب کے نیک اعمال قبول فرمائے۔ (آمین)۔“