منافع بخش (نظرانداز) پہلو

عید الاضحی کے موقع پر قربان کئے جانے والے مال مویشیوں کی کھالیں عام دنوں میں ذبح کئے جانے والے جانوروں کی کھالوں کے مقابلے بہتر ہوتی ہیں کیونکہ قربانی کیلئے ظاہری عیب سے پاک اور صحت مند بالخصوص فربہ جانور منتخب کئے جاتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اِن جانوروں کی کھال کا حجم بھی نسبتاً بڑا اور بہتر ہوتا ہے لیکن اِن کھالوں سے خاطرخواہ استفادہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ قربانی کے بعد گوشت تو کھانے کے استعمال میں آجاتا ہے اور جانوروں سے اتری ہوئی کھال فلاحی اداروں یا غربا ء کو عطیہ کردی جاتی ہے جنہیں چمڑا ساز صنعتیں (ٹینریز) خرید لیتی ہیں۔ ہر سال قربانی کے موقع پر کھالوں کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں تاہم اس سال (دوہزاربائیس) میں کھال کی قیمتیں کچھ بحال ہوئی ہیں۔ اگر حکومتی ادارے توجہ دیں تو عیدالاضحی سے جڑی ’معاشی سرگرمی‘ پاکستان کیلئے زرِمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے اور یہ چمڑے کی صنعت کو خام مال فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بھی بن سکتی ہے کیونکہ عید ِقربان پر پورے سال کی طلب کے قریب نصف تعداد میں کھالیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے جانوروں کو فروخت کرنے والے بیوپاریوں کے علاوہ کھالوں کی ابتدائی صفائی کرنے والی صنعت کو بھی عیدالاضحی کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔
 وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ”پاکستان میں چمڑے کی بنی مصنوعات کی کھپت بہت کم ہے اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والا پچانوے فیصد چمڑا اور اس سے بنی مصنوعات برآمد ہوتی ہیں۔ سال دوہزارچودہ میں چمڑے کی مصنوعات کا برآمدات میں حصہ پانچ اعشاریہ ایک فیصد تھا جو دوہزاراُنیس میں کم ہو کر تین اعشاریہ سات فیصد رہ گیا۔“ قابل ذکر ہے کہ اُنیس سو نوے کی دہائی میں پاکستانی چمڑے یا اِس سے تیارکردہ مصنوعات کی برآمدات کل برآمدات کے دس فیصد سے زائد تھیں۔ پاکستان میں چمڑے کے جوتے بنانے کی صنعت دنیا میں ساتویں بڑی صنعت ہے اور جوتوں کی عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ قریب ڈھائی فیصد ہے۔ گزشتہ مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے ابتدائی نو ماہ کے دوران پاکستان سے تیار کردہ چمڑے کے جوتوں کی برآمدات میں ”اکیس فیصد“ اضافہ ہوا یعنی مجموعی طور پر 13کروڑ ڈالر مالیت کے ”میڈ اِن پاکستان“ جوتے برآمد کئے گئے۔
 چند برس قبل چین کی جانب سے مصنوعی چمڑا متعارف کروانے کے بعد سے قدرتی چمڑے اور قدرتی چمڑے سے بنی ہوئی مصنوعات کی مارکیٹ متاثر ہوئی ہے بالخصوص فیشن انڈسٹری میں اصلی چمڑے کے بجائے مصنوعی چمڑے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ یہ ’فیشن ٹرینڈ‘ کس قدر حاوی (مقبول) ہے اِس کا اندازہ خیبرپختونخوا کی ثقافتی پہچان یہاں کے مختلف علاقوں کی چپل اور چپلی (جوتوں) میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جس میں مصنوعی چمڑے اور کپڑے کا استعمال بڑھ گیا ہے اور بظاہر مصنوعی اور اصلی چمڑے میں فرق زیادہ نہیں ہوتا اور ایک عام صارف اِس فرق کو سمجھ بھی نہیں سکتا لیکن مصنوعی چمڑے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ تھوڑے استعمال کے بعد بھی بہت جلد خراب ہونے لگتے ہیں۔ مصنوعی چمڑے سے بنا جوتا‘ جیکٹ اور دیگر اشیاء مشکل سے ایک سال ہی استعمال کے قابل رہتی ہیں جس کے بعد یا تو وہ پھٹ جاتی ہیں یا پھر ان کی چمک دمک باقی نہیں رہتی۔
 اس کے برعکس جانور کی کھال سے بنائی گئی مصنوعات کئی سال تک کارآمد رہتی ہیں اور انہیں پالش کرکے بار بار چمکایا اور مرمت کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو چمڑے کی صنعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس طرح جانور کا گوشت ٹھنڈا یا خشک کرکے محفوظ کیا جا سکتا ہے بالکل اِسی طرح جانور کی کھال کو بھی محفوظ کرنے کے عمل کو بطور چھوٹی صنعت (سمال میڈیم انٹرپرائز‘ ایس ایم ای) متعارف کروایا جائے۔ موسم گرما میں ذبح ہونے والے جانور کی کھال کی قیمت عام طور پر کم ہوتی ہے اور سردیوں میں زیادہ کیونکہ سردیوں میں کھال کم خراب ہوتی ہے یا اِسے محفوظ کرنے پر لاگت کم آتی ہیں۔ 
اگر قربانی کی کھالوں کو درست طریقے سے رکھا جائے تو اس سے ملکی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ برآمدات میں اضافے کی صورت فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور جانوروں سے حاصل ہونے والی ہر کھال زرِمبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے جبکہ کھالوں کو محفوظ اور اِنہیں قابل استعمال بنانے کی صنعت کو ترقی دے کر روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اگر صوبائی حکومت متوجہ ہو اور عملی اقدامات کئے جائیں تو کھالوں سے چمڑا تیار کرنے کی صنعتیں (ٹرنیریز) پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی قائم ہو سکتی ہیں۔