سری لنکا کی آبادی قریب دو کروڑ بیس لاکھ (بائیس ملین) نفوس پر مشتمل ہے جن کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اُن کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہوا۔ مہنگائی بڑھی اور ملک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے یعنی ضروریات زندگی ادویات اور پیٹرولیم مصنوعات کی قلت ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اپریل دوہزاربائیس میں سری لنکا مالی طور پر ’دیوالیہ‘ قرار دیا گیا تھا کیونکہ اُس کے پاس ملک کے مجموعی قرض ’51 ارب ڈالر‘ پر سود اور قرض کی واپسی کیلئے غیرملکی زرمبادلہ ختم ہو گیا تھا۔ سری لنکا حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (IMF) سے بیل آؤٹ پیکج (ہنگامی بنیادوں پر قرض) لینے کی کوشش کی لیکن ’آئی ایم ایف‘ نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے قرض دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلے کو اِس حد تک طول دیا کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے نہ صرف وزرأ اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی رہائشگاہوں کو جلا ڈالا بلکہ صدراتی محل کا گھیراؤ کر کے 73 سالہ صدر گوتابایا راجاپکسا (Gotabaya Rajapaksa) کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ جان بچا کر کولمبو ہوائی اڈے تک پہنچنے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن ائرپورٹ پر تعینات عملے نے اُنہیں عام مسافروں کی طرح قطار میں کھڑے ہو کر ہوائی جہاز پر سوار ہونے کو کہا جبکہ صدر اُن کی اہلیہ اور باڈی گارڈ نے اپنی حفاظت کے پیش نظر ایسا کرنے سے انکار کیا۔
سری لنکا کے عوام کا مطالبہ ہے کہ صدر ’راجہ پکسا‘ مستعفی ہوں اور صدر مستعفی ہونے کیلئے تیار بھی ہیں لیکن وہ مستعفی ہونے کا اعلان بیرون ملک جانے کے بعد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں اُنہیں آئینی طور پر حاصل استثنیٰ ختم ہو جائے گا اور اگر وہ سری لنکا کے اندر رہتے ہوئے ہی مستعفی ہوں تو اُن کے خلاف مالی بدعنوانی کے مقدمات کے تحت گرفتاری عمل میں آ سکتی ہے اور وہ ایسی کسی صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں۔ صدراتی محل سے فرار ہونے کے بعد صدر راجہ پکسا نے ائرپورٹ سے متصل اڈے میں پناہ لی جہاں سے اُنہیں ایک فوجی طیارے کے ذریعے 13 جولائی کی صبح مالدیپ بھیج دیا گیا۔ راجا پکسا متحدہ عرب امارات (دبئی) جانا چاہتے تھے اور صدراتی محل چھوڑنے سے پہلے وہ اپنے ساتھ دستاویزات اور کرنسی سے بھرا ہوا ایک صندوق (سوٹ کیس) بھی لیجانا چاہتے تھے تاہم وہ صدراتی محل ہی میں رہ گیا جسے عدالت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اُس صندوق میں سرکاری دستاویزات کے علاوہ 1 کروڑ 78 لاکھ 50 ہزار (17.85 ملین) سری لنکن روپے (پچاس ہزار ڈالر) بھرے ہوئے تھے۔
ایک سری لنکن روپیہ پاکستان کے 57 پیسوں کے برابر ہے۔سری لنکا کے دیوالیہ ہونے اور ملک کی خراب معاشی و اقتصادی صورتحال کے آئینے میں ہر ملک کو اپنی شکل دیکھنی چاہئے کہ اگر وہ سری لنکا ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لیتا ہے تو ایسے کونسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ ہوا اور خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے ہنگامی حالات میں مالی مدد کی توقع رکھنے کا زعم بھی بیچ چوراہے ٹوٹ چکا ہے۔ جو ممالک ’آئی ایم ایف‘ سے تعلق پر فخر کرتے ہیں اُنہیں سری لنکا کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ توجہ طلب ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ نے فروری2022ء میں اعدادوشمار جاری کئے تھے جن کے مطابق پاکستان نے چین سے 18.4 ارب ڈالر قرض حاصل کر رکھا ہے جبکہ پاکستان کا کل بیرونی قرض 45 ارب ڈالر ہے جبکہ سری لنکا کا کل بیرونی قرض 51 ارب ڈالر ہے جس میں چین سے حاصل کردہ 5 ارب ڈالر شامل ہیں! قرض لینے کے لحاظ سے پاکستان اور سری لنکا ایک دوسرے کے قریب ہیں لیکن فرق قومی پیداوار کا ہے۔
سری لنکا کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) 322 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی ’جی ڈی پی‘ ایک کھرب ڈالر سے زائد ہے اور اِسی وجہ سے زیادہ قرض اور بار بار قرض لینے کے باوجود بھی پاکستان سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہیں ہو رہا کیونکہ پاکستان کے پاس وسائل نسبتاً زیادہ ہیں اور پاکستان کے عوام مشکل معاشی حالات میں پہلے سے زیادہ محنت کرنے کے عادی بھی بن چکے ہیں۔یعنی ایک طرح سے پاکستان اور سری لنکا کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی وسائل کے اعتبار سے اور نہ ہی محنتی افرادی قوت کے اعتبار سے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک وہ بھی دور تھا جب ’سری لنکا‘ کو دنیا بھر میں مثالی ملک سمجھا جاتا تھا اور اِس کی ”ترقی پذیر معیشت“ کا مطالعہ کرنے کیلئے ماہرین سری لنکا جاتے تھے لیکن اب وہی سری لنکا خوراک‘ ایندھن‘ ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم ہے کیونکہ اِس کے پاس درآمدات کیلئے غیرملکی زرمبادلہ نہیں ہے! سری لنکا کے بیشتر حصوں میں کئی ہفتوں سے بجلی نہیں اور اِس بلیک آؤٹ کی وجہ سے معمولات زندگی اور کاروبار مفلوج ہو چکے ہیں۔ سری لنکا کی معاشی تباہی (بدحالی) میں کورونا وبا کے بعد دہشت گردی نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ذہن نشین رہے کہ سری لنکا کی قومی آمدنی میں 12 فیصد سیاحت سے حاصل ہوتی تھی اور 2019ء میں دہشت گرد حملوں کے بعد اِس کی سیاحتی صنعت تباہ ہو گئی جو ملک کے دیوالیہ ہونے کا نکتہئ آغاز ثابت ہوا۔ اِسی طرح بیرون ملک مقیم سری لنکن کی جانب سے ترسیلات زر سے سری لنکا کو جی ڈی پی کا 8 سے 10فیصد حاصل ہوتا تھا جو کورونا وبا کی وجہ سے رک گیا اور یوں مجموعی طور پر ملک کی بیس سے اکیس فیصد آمدنی کم ہو گئی جو درآمدات کیلئے زرمبادلہ فراہم کرنے کا بنیادی ذریعہ تھی۔