انداز فکر کا فرق

نامور بیورو کریٹ اور مشہور کتاب شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب اپنی چند یاد داشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے ملنے گورنر جنرل ہاؤس گئے،ملاقات کے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو قائد اعظم انہیں رخصت کرنے بیرونی دروازے تک آئے۔ کمرے سے نکلتے ہوئے قائد اعظم نے بجلی کے تمام سوئچ آف کردئیے۔میں نے پوچھا کہ آپ نے لائٹس کیوں آف کردیں۔ بابائے قوم کہنے لگے کہ گورنر جنرل ہاؤس میری سرکاری رہائش گاہ ہے جو میرے پاس قوم کی امانت ہے،خالی کمرے میں لائٹس اور پنکھے لگا کر میں امانت میں خیانت نہیں کرسکتا۔ قوم کو توانائی کی ضرورت ہے اور میں مفت میں ایک یونٹ بجلی بھی ضائع کرنے کا روادار نہیں ہوسکتا۔قائد اعظم نے کہا کہ آپ دروازے سے باہر نکلیں گے تو میں برآمدے کی بتیاں بھی گل کر دوں گا۔یہ اس شخص کا انداز فکر تھا جس نے اس قوم کو غلامی سے آزادی دلوائی تھی۔آگے چل کر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں  کہ اسی دوران ایک بڑے سرکاری افسر سے ملنے راولپنڈی میں ان کے دفتر گیا۔ مذکورہ افسر کے دفتر میں بھی دو اے سی لگے ہوئے تھے اورموصوف تھری پیس میں ملبوس ہونے کے باوجود ٹھنڈ محسوس کررہے تھے میں نے کہا کہ ایک اے سی بند کردیتے سردی بھی نہیں لگے گی اور بجلی کا بل بھی کم آئے گا۔ افسر نے جواب دیا کہ میں نے بل کونسا اپنی جیب سے بھرنا ہے۔ اعلی عہدے پر فائز بڑے تعلیم یافتہ افسر کی سوچ اور خیالات نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔بے شک کسی قوم کی ترقی اور بربادی میں انداز فکر کا بڑا دخل ہے۔خود انحصاری کی منزل پانے اور منظم قوم بننے کیلئے سوچ کا انداز بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔آج پاکستان کو جن معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں ہم سب کا ہاتھ ہے قومی وسائل کی اونرشپ کا کسی کو ذرا بھی احساس نہیں۔ سیاست دانوں سے لے کر عام لوگوں تک ہر کوئی اس حوالے سے پوری طرح ذمہ دارہے۔قومی وسائل لوٹنے والے ہی کرپٹ نہیں، اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں دانستہ کوتاہی برتنے والے، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے،رشوت اور سفارش کے زریعے کسی کا حق مارنے والے بھی کرپٹ اور قومی مجرم ہیں ہم میں سے ہر کوئی اپنے حق کے حوالے سے آواز بلند کرتا ہے اور شکایت بھی کرتا ہے کہ اس کو حق نہیں ملا یا حق ملنے میں مشکل کا سامنا ہے تاہم اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی فکر مند نہیں اور نہ ہی کوئی سوچتا ہے کہ اس کے ذمے معاشرے کی طرف سے کون سی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کو پورا کرنا اسی طرح لازمی ہے جس طرح اپنے حق کے حوالے سے آواز اٹھانا۔ اور جب تک ہمارا انداز فکر نہیں بدلتا۔بحرانوں کے بھنور میں غوطے کھا تے رہیں گے۔یعنی ہمیں بحیثیت قوم اب اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی اور اپنے رویئے کو بھی درست کرنا ہوگا کیونکہ جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے ان کو کوئی ایک ادارہ یا چند افراد ختم نہیں کر سکتے بلکہ پوری قوم ملکر ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے کفایت شعاری کے ذریعے قومی وسائل کی حفاظت کرنا کسی ایک فرد کے لئے ممکن نہیں یہ ایک مشن ہے جس میں ہر فرد کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔