اگست کا موسم آنیوالا ہے اور اس موسم کی ایک جادوئی تاریخ چودہ اگست بھی ہے جب اس خطہ کے ماتھے پر خوش بختی کے سورج نے اپنی سنہری کرنوں سے آزادی تحریر کی تھی اور تب سے اب تک اس خطے کے لوگوں کے دل اسی آزادی کی لے پر دھڑکتے ہیں، اب کے اس تاریخی اور یادگار لمحہ کے پچھتر سال پورے ہو رہے ہیں اور 75 واں سال ڈائمنڈ جوبلی کے طور پر منایا جاتا ہے جوبلی منانے کا یہ سلسلہ کسی بھی یاد گار دن کی ایک خاص مدت مکمل ہو نے پر منایا جاتا ہے جیسے سلور جوبلی، گولڈن جوبلی، ڈائمنڈ جوبلی اور پلاٹینیم جوبلی کی خوشی منائی جاتی ہے، ہر چند اس کی ترتیب پہلے پہل تو پچیس برس پورے ہونے پر سلور جوبلی، پچاس سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی، ساٹھ سال کی تکمیل کو ڈائمنڈ جولی اور ستر برس کے بعد پلاٹینئم جوبلی کے نام سے سیلی بریٹ کیا جاتا تھا، لیکن فلم کی دنیا میں بات مہ و سال کی بجائے ہفتوں تک محدود ہو گئی اور کسی سنیما ہال میں مسلسل پچیس ہفتے تک لگے رہنے والی فلم سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کرتی،اسی طرح پچاس ہفتہ بعد گولڈن، پچھتر سال بعد ڈائمنڈ اور سو ہفتوں کے مکمل ہونے پر اسکے سر پلاٹینیم جوبلی فلم ہونے کا تاج سج جاتا تھااورغالباًَ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور زیبا کی فلم ”ارمان“ کو پاکستان کی پہلی پلاٹینیم جوبلی فلم کا اعزاز ملا تھا، تاہم اب جوبلی کی تقسیم اس طور ہو گئی ہے کہ 75 برس کی تکمیل پر ڈائمنڈ جوبلی کی خوشی منائی جاتی ہے اور الحمدللہ اس سال مملکت خدا داد پاکستان اپنے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی (75سال) کی تقریبات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس خوشی کو صحیح طور منانے کیلئے بعض اداروں نے گزشتہ سال کے چودہ اگست سے رواں سال کے چودہ اگست تک کیلئے تقریبات ترتیب دی ہیں ان اداروں میں اکادمی ادبیات پاکستان سر فہرست ہے جسکے چیئر مین ڈاکٹر یوسف نے سال بھرکی ادبی تقریبات کا کیلنڈر ترتیب دیا‘کچھ اداروں نے یہ سلسلہ رواں سال سے شروع کیا، ریڈیو پاکستان پشاور کی پہلی خاتون سٹیشن ڈائریکٹر (جو اب کنٹرولر ہیں)سیدہ عفت جبار نے رواں سہ ماہی میں پاکستان کی ڈائمنڈ جولی کے پروگرام شروع کر رکھے ہیں کچھ ہفتے پہلے میں نے ریڈیو پاکستان کے سبزہ زار میں ہونیوالے ”آزادی میلہ“ میں شرکت کی تھی، جسے محمد اسلم اور سید رحمن شینو سمیت کچھ نئے میزبانوں کی جاندار پرفارمنس نے شاندار اور یاد گار بنا دیا تھااور پھر چند دن ادھر مجھے ایک اور پروگرام میں بطور منصف شریک ہونے کا موقع ملا، جسے میں نے کئی حوالوں سے بہت انجوائے کیا‘ایک تو بہت دنوں کے بعد معروف گائیک زیک آفریدی کو دیکھا، شاید اب بہت مصروف ہیں اس لئے کم کم ملاقات ہوتی ہے البتہ کچھ ہی عرصہ پہلے تک جب وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں فوری طور پر کسی پراجیکٹ میں میری ضرورت ہے تو بلا جھجک گھر چلے آتے، مجھے ان کا یہ انداز بہت بھاتا۔ ایک بار تو انہیں ایک بڑے ادارے کیلئے خصوصی ٹاسک رحمن بابا کے کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا ملا۔ تولاکھ کہا کہ طہٰٰ خان مرحوم کا ترجمہ مل جائے گا مگر وہی پیار اور دلار کہ نہیں آپ ہی نے ترجمہ کرنا ہے اور ابھی ابھی چاہئے سو کرنا پڑا۔ مگر اب بہت دنوں بعد ملے بہت خوش ہوا کہ کامیاب اور کامران ہیں بچے بڑے ہو کر اپنے حصے کا اچھا کام کرنے لگیں تو خوشی ہوتی ہے پھر ملنا ملانا ایک ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے، عفت جبار سے جہاں ان کے مرحوم والد اور پشاور ریڈیو کے ایک اچھے پروڈیوسر عبد الجبار کی بہت سی باتیں ہوئیں وہیں کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہونے والے مرحوم صوفی بشیر احمد(استاد) کو بھی ہم نے بہت دیر تک یاد کیا، ان کے لئے عفت جبار نے پشاور ریڈیو میں ایک بہت ہی بھرپور تقریب ِ ملال کا اہتمام کیا تھا، جس میں استاد بشیر کے چاہنے والے بہت سے دوست شریک تھے، میری یاد داشت میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی تقریب تھی جس میں،میں شریک ہوا تھا۔ میں نے کہا بھی یہ ایک بہت ہی احسن روایت کا آغاز ہے، ہمارے ہاں بہت سے ایسے ادارے ہیں جن کیلئے جو لوگ سالہا سال کنٹری بیوٹ کرتے ہیں اور جب وہ بچھڑ جاتے ہیں تو اردو روز مرہ کے مطابق ”آج مرے کل دوسرا دن“ اور دوسرے دن کی مصروفیات میں بچھڑنے والے کی یاد بھی کہیں کھو جاتی ہے، اسی ریڈیو پاکستان پشاور کا نام اپنی بے پناہ پرفارمنس سے روشن رکھنے والوں کی کبھی برسی یا اعتراف ِ فن کی کوئی آفیشل تقریب نہیں منائی جاتی۔نذیر نیازی،ایف آر قریشی، محمد سلطان، یعقوب رومی آغا سرور اور ودود منظر جیسے لیجنڈ فنکار سمیت صداکاروں اور میز بانوں کی ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ اسی طرح موسیقی سے اور سکرپٹ سے جڑے ہوئے کتنے ہی نامور موسیقار اور گلوکار اور لکھاری ہیں جن کی وجہ سے ریڈیو کو ایک پہچان ملی اور ایک زمانے میں ایک دنیا ان کی آوازوں پر جان دیتی تھی مگر جب وہ چپکے سے بھری دنیا چھوڑ گئے تو گویا سماعتوں سے کیا گئے کہ یار لوگوں نے دلوں سے بھی نکال دیا۔ سیدہ عفت جبار کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے نہ جانے ریڈیو پاکستان پشاور کے شاندار ماضی کے کتنے ہی زمانے میں گھوم آیا مجھے لگتا ہے کہ ریڈیو کی یہ عمارت میرا حافظہ ہے، کتنی ہی یادیں پاس آ بیٹھتی ہیں جب ستر کی دہائی میں پہلی بار آ یا تھا،جب لائیو مارننگ ٹرانسمیشن ”اجالا“ باسط سلیم،حمیدہ بانو،نازلی، نیلوفر اور نذیر ناجی جیسے عہد ساز فنکاروں کے ساتھ مل کر کی تھی۔ پھر بطور کمپیئر،ماڈریٹر، ڈرامہ رائٹر، کوئز ماسٹر، کمرشل سروس اور مذہبی پروگراموں کیساتھ ساتھ ان گنت مسلسل نشر ہونیوالے مزاحیہ پروگرام لکھے اور تین گھنٹے مسلسل چلنے والے اپنے وقت کے بہت ہی مقبول پروگرام میوزک چینل ہنڈرڈمیں سید رحمن شینو اور نوشابہ بیگم جیسی عمدہ فنکارہ کے ساتھ کیا، موسیقی کے کتنے ہی پروگرام سٹوڈیوز میں بھی اور ریڈیو پاکستان کے آڈیٹوریم میں بھی کئے، جہاں پاکستان کے دیگر سٹیشنز سے آئے فنکاروں کیساتھ مل کر موسیقی کے پروگرام پیش کرنیکا موقع ملا جن میں نرگس رشید اورکنول نصیر بھی شامل ہیں‘ اس دن بھی موسیقی ہی کے حوالے سے سیدہ عفت جبار نے بلایا تھا کہ صوبہ کے دیگر سٹیشنز سے آئے ہوئے ملی نغموں میں بہترین گیت چننے کا فریضہ انجام دیں، مجھے تو خیر گیتوں کی شاعری دیکھنا تھی جب کہ زیک آفریدی نے گانے والوں کی آواز اور اعتماد کو دیکھنا تھا مشکل کام دوست عزیز پروفیسر اے آر انور کے سپرد تھا انہیں موسیقی کمپوزیشن،میوزک ارینجمنٹ اور گائیکی کے تکنیکی رموز دیکھنا تھے اور وہ اس فن کے ماہر ہیں، موسیقی کی تمام تر باریکیوں سے ان کی سماعت آشنا ہے، آن کی آن میں وہ سمجھ جاتے ہیں البتہ ایک نیا کام اب کے یہ ہوا کہ پینل پر موجود برخوردار سردار اعظم نے میری تجویز پر سیدہ عفت جبار کی اجازت سے وہ ساری گفتگو بھی ریکارڈ کر لی جو میرے اور اے آر انور کے درمیان موسیقی کے حوالے سے ہر گیت کے بعد ہوتی رہی جس میں زیک آ فریدی اور سیدہ عفت جبار نے بھی بھرپور حصہ لیا‘ اچھے لکھے اچھے گائے اور اچھی آوازوں میں مختلف سنٹرز سے آئے ہوئے ملی نغموں کے سنگ بہت اچھا وقت گزرا‘ریڈیو کے لئے لکھی ہوئی اپنی ایک نظم یاد آ گئی۔
”ایک صدا جو/کانوں میں سرگوشی کر کے/آنکھ میں حیرت بھر دیتی ہے/گاہے سن کر ہنس دیتا ہوں /گاہے چپ ہوجاتا ہوں میں /گاہے گاہے رو پڑتا ہوں /گاہے یہ آ واز پکڑ کر میری انگلی/نجانے رستوں کی جانب چل پڑتی ہے“