پنجاب کے 20 اِنتخابی حلقوں میں ’ضمنی انتخابات‘ نے ’قومی انتخابات‘ جیسا ماحول پیدا کر رکھا ہے؛ ذرائع ابلاغ سے لیکر سوشل میڈیا تک پاکستان کی دیگر سبھی خبروں میں دلچسپی کم ہے‘ اگرچہ اِن مقابلوں میں آزاد اُمیدوار بھی حسب ِسابق حصہ لے رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ اصل مقابلہ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کے درمیان ہوگا‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کا مرحلہ محض انتخابی قضیہ نہیں بلکہ بظاہر ہار یا جیت سے ”زیادہ پیچیدہ“ ہے کیونکہ اِس مرتبہ کسی حلقے کے مسائل یا ترقیاتی ضروریات اور محرومیوں کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ ملک کو درپیش سنگین معاشی و سیاسی بحرانوں کے حوالے سے سیاسی قائدین تقاریر کر رہے ہیں۔ انتخابی حلقوں سے کامیاب ہونیوالے ماضی کے اُمیدواروں کا ذکر بھی ثانوی ہے اور مدمقابل سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی کارکردگی پر سوال اُٹھا رہی ہیں‘ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مذہبی تہوار اور موسم کی شدت آڑے نہیں آ رہی اور یہ سب کچھ انتہائی غیرمعمولی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پنجاب کے 20 حلقوں پر بیک وقت ضمنی انتخابات اِس وجہ سے ہو رہے ہیں کیونکہ موجودہ ’17ویں‘ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 20 اراکین نے اپنی جماعت کے مخالف امیدوار (حمزہ شہباز) کی حمایت کی اور اِس وجہ سے تحریک ِانصاف کے وزیراعلیٰ کو حاصل حمایت اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی جن اراکین صوبائی اسمبلی نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں‘ اُن کیخلاف عدالت سے رجوع کرنے پر ’ضمنی انتخاب‘ کا فیصلہ سامنے آیا‘اب پورے ملک کی نظریں اِن 20 حلقوں پر لگی ہوئی ہیں‘مجموعی طور پر 45 لاکھ 70 ہزار (4.57 ملین) سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے لیکن اصل بات صرف پنجاب کی سیاست اور پنجاب کے انتخابی حلقوں کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ یہی ضمنی انتخاب قومی سطح پر آئندہ عام اِنتخابات کا قبلہ بھی متعین کر رہے ہیں اور کل (سترہ جولائی بروز اتوار) پورے ملک کی نظریں 9 ہزار 562 پولنگ بوتھوں پر مرکوز رہیں گی‘ جن کی حفاظت کیلئے 52 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے جا رہے ہیں‘جمہوریت کسی ایسے نظام کا نام نہیں جس میں صرف اور صرف ووٹ کی پرچی ہی کے ذریعے احتساب ہو‘ نہ ہی جمہوریت حکمرانوں کو مستقل طور پر بااختیار بنانے کی اجازت دیتی ہے‘طاقت ملکیت نہیں اور نہ ہی ہو سکتی ہے‘ بہاریں جمہوریت سے ہیں جو اقتدار کی ایک خاص مدت ہے‘دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے جو حقائق پیش کرتے ہیں‘ اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا تجربہ ناکام رہا ہے‘ جمہوریت یا آمریت نہیں بلکہ پاکستان کو کسی نئے طرزحکمرانی کا انتخاب کرنا چاہئے وقت ہے کہ صرف قومی و ضمنی انتخابات ہی پر نہیں بلکہ اِس مسئلے پر بھی بات ہونی چاہئے کہ آخر کیوں جمہوریت پنپ نہیں رہی اور کیا وجہ ہے کہ خود کو جمہوری اور قوت کہنے والی جماعتوں کی اکثریت اپنی ذات میں جمہوری نہیں؟ اِس منظرنامے میں ایک ’عام آدمی‘ کی حیثیت صرف اور صرف ’ووٹر‘ کی ہے اور یہ انتخابی تعلق اپنی ذات میں ’انتہائی کمزور (ناتواں)‘ ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ انتخابات کا دوسرا نام (حاصل) ”اتفاق رائے“ ہوتا ہے وقت ہے کہ اصلاح احوال کی جانب جائیں‘ تاہم سب کچھ وسیع مشاورت سے ہو جس میں کھل کر ہر کوئی اپنا موقف دے‘ مقصد بہتری کی جانب بڑھنا ہو۔