خیبر پختونخوا حکومت نے انتہا پسندانہ رویوں، دہشتگردی اورمعاشرتی برائیوں پر تحقیق، ان کی وجوہات معلوم کرنے اور ان کا تدارک کرنے کیلئے سنٹر آف ایکسی لینس کے نام سے ادارہ قائم کیا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے وزیر اعلی کے زیر صدارت سنٹر آف ایکسی لینس کے اجلاس میں ادارے کو تمام جدید سہولیات سے آراستہ کرنے اور سٹاف کی تقرری کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔سنٹر کو فعال بنانے کیلئے مختلف شعبوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔معاشرے میں شدت پسندی اور جارحانہ رویوں کے فروغ میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔غربت کی شرح میں اضافہ،بنیادی ضرورت کی اشیا کے نرخوں میں روز افزوں اور ہوشربا اضافہ، عدم مساوات، انصاف کے حصول میں مشکلات، سفارش کلچر، اقربا پروری اور بڑھتی ہوئی کرپشن اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔معاشرتی توازن میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل کا تدارک موثر قانون سازی اور قوانیں پر سختی سے عملدرآمد کرنے میں پوشیدہ ہے۔
نامور مغربی فلاسفر والٹئیر کہتے ہیں کہ جب کسی معاشرے میں کرپشن کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تو معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے اس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔سنٹرآف ایکسی لینس کا قیام اس حقیقت کا مظہر ہے کہ حکومت کو معاشرتی نا ہمواری اور اس کے نتیجے میں امن عامہ کا مسئلہ پیدا ہونے کا ادراک ہے۔توقع ہے کہ سنٹرآف ایکسی لینس کی طرف سے معاشرے میں پیدا ہونے والی نا ہمواری کا تدارک کرنے کیلئے جو سفارشات پیش کی جائیں گی حکومت سنجیدگی سے ان پر غور بھی کرے گی اور ان کا قلع قمع کرنے کیلئے ٹھوس اور عملی اقدامات بھی اٹھائے گی تاکہ انتہاپسندانہ سوچ کا رخ تعمیر اور مثبت سرگرمیوں کی طرف موڑا جاسکے۔کرپشن، ناانصافی اور ظلم و جبر کا خاتمہ صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں، سرکاری اداروں، غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی، اساتذہ اور علمائے کرام سمیت معاشرے کے باشعور افراد کو بھی امن و آشتی کے قیام میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔
کسی بھی منصوبے اور مہم کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ عوام کی بھر پورشرکت کو اس میں یقینی بنایا جائے، اگر معاشرے کے ہر فرد کو اس حوالے سے آگاہی دی جائے کہ یہ جو ہمارے ارد گرد تشددکے واقعات ہوتے ہیں تو ان کا تدارک جہاں حکومت کر رہی ہے وہاں عوام کو بھی اپنے ماحول سے باخبر رہنا چاہئے ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے اور کوئی بھی ایسی سرگرمی ہو کہ جس کے ہمارے معاشرتی امن پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں تو اس کے بارے میں فوری طور پر متعلقہ اداروں کو مطلع کرنا چاہئے۔ اس طرح ہر محلے اور گلی کی سطح پر ایسی کمیٹیاں بنانے کی بھی ضرورت ہے جو معاشرے میں تحمل و رواداری کو فروغ دینے میں کردار ادا کریں۔