تعمیراتی لاگت میں اضافے کا بنیادی سبب ’سیمنٹ‘ کی گرانی ہے اور حالیہ چند ہفتوں کے دوران سیمنٹ کی قیمتوں میں ردوبدل اِس تیزی سے ہو رہا ہے کہ جو اضافہ پہلے ہفتوں یا مہینوں بعد ہوتا تھا اب دنوں اور گھنٹوں کی صورت ہو رہا ہے اور اِس اضافے کو روکنے کی کوئی صورت کارگر نہیں ہو رہی۔ گزشتہ ماہ پاکستان میں پچاس کلو گرام سیمنٹ کے ایک بیگ (بوری) کی اوسط ایک ہزار روپے سے تجاوز کر گئی تھی جو بہت زیادہ ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے جاری کردہ ہفتہ وار اعدادوشمار کے مطابق دو ہفتوں کے دوران سیمنٹ کے ایک بیگ کی قیمت گیارہ سو روپے کے قریب پہنچ چکی ہے جس سے یہ اضافہ گزشتہ سال کی اوسط مروجہ قیمتوں سے 68فیصد زیادہ ہے۔ صرف سیمنٹ ہی نہیں بلکہ تعمیرات میں استعمال ہونے والی ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ غیر معمولی طور پر زیادہ ہے لیکن اِس بارے میں بہت کم بات ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اُن کیلئے صورتحال زیادہ پریشانی کا باعث ہے کیونکہ ایک مخصوص بجٹ سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے تعمیرات کا معیار متاثر ہو رہا ہے۔
مالی سال دوہزاربائیس میں سیمنٹ کی پیداوار بھی کم رہی جو مجموعی طور پر آٹھ فیصد کی منفی نمو پر رہی۔ اصولاً سیمنٹ کی مانگ کو مدنظر رکھتے ہوئے پیداوار بڑھنی چاہئے لیکن چونکہ پیداوار کم اور طلب زیادہ ہے اِس لئے بھی سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسرا محرک یہ ہے کہ سیمنٹ بنانے والی کمپنیاں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ نہیں کر رہیں جس سے صارفین کو فائدہ ہو اور مختلف قیمتوں پر (سستے داموں) سیمنٹ ملے۔ اِس پوری صورتحال میں صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے حکومتی اداروں کو مداخلت کرنی چاہئے کیونکہ سال بہ سال سیمنٹ کی پیداوار میں مثبت اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن اِس کی پیداواری شرح نمو میں کمی کے باعث برآمدات میں بھی کمی ہوئی ہے جو گزشتہ پچھلے سال ہوئی فروخت کا سولہ فیصد تھی لیکن مالی سال 2022ء میں 10فیصد تک گر گئی۔ حجم کے لحاظ سے سیمنٹ کی برآمدات میں بیالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ سیمنٹ کی مقامی (گھریلو) کھپت میں ایک فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ یہ ڈرامائی طلب و کمی افغانستان سے سری لنکا تک کی منڈیوں میں بحرانوں کی وجہ سے بھی ہے جس کے باعث صرف سیمنٹ ہی نہیں بلکہ دیگر اجناس و اشیا کی برآمدات بھی کم ہوئی ہیں۔
سمندری برآمدات میں کمی اس لئے ہوئی کیونکہ مال برداری کے نرخ بے تحاشہ بڑھ گئے ہیں جس سے سیمنٹ کی ترسیل یا اِس کی درآمدات مہنگا ہوئی ہیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والی سیمنٹ کی دو بڑی منڈیاں افغانستان اور سری لنکا ہیں اور اِن دونوں ممالک داخلی طور پر معاشی و مالی پریشانیون کے دور سے گزر رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ’میڈ اِن پاکستان‘ سیمنٹ کیلئے قابل رسائی منڈیاں نہیں رہے۔ اِس صورتحال میں پاکستان کو ایسی نئی منڈیوں کی ضرورت ہے جہاں یہ سیمنٹ برآمد کر سکے اور وہ تمام ممالک جو پہلے پاکستان سے سیمنٹ درآمد کرتے تھے لیکن اب اُن کے ہاں ’تعمیراتی طلب‘ کم ہو گئی ہے تو اِس محرک کی وجہ سے سیمنٹ کی پیداوار کم نہیں کرنی چاہئے کیونکہ زیادہ پیداوار سے سیمنٹ مقامی طور پر کم داموں میسر آ سکتی ہے۔ مقامی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں سیمنٹ کی طلب میں کمی آئی ہے۔ اُمید تھی کہ حکومت کی تعمیراتی ایمنسٹی سکیم اور نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام جیسی حکمت عملیوں کی وجہ سے نہ صرف سیمنٹ بلکہ دیگر تعمیراتی ضروریات کی پیداوار بڑھے گی اور تعمیراتی شعبے سے وابستہ صنعتوں کو خاطرخواہ فروغ ملے گا لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔حکومت کی جانب سے اراضی کی ملکیت کے حوالے سے ’ایمنسٹی اسکیم‘ اِس بات کا ترجمان نہیں ہوتی کہ اِس کی بدولت زیادہ تعمیرات ہوں گی اور اِسی طرح اگر حکومت کسی بڑے تعمیراتی منصوبے کا آغاز کرتی ہے تو اِس یہ بھی اِس بات کی ضمانت نہیں ہوتا کہ اِس سے نجی شعبے میں بھی تعمیرات بڑھیں گی تاہم ماضی کے مقابلے فی الوقت تعمیراتی شعبے کی مشکلات اور اِس پر مہنگائی کے اثرات سے پیدا ہونے والی صورتحال خاصی بدتر و ابتر ہے۔
بے لگام افراط زر (مہنگائی) نے ہر شعبہئ زندگی کو متاثر کیا ہے جبکہ سیمنٹ اور دیگر تعمیراتی مواد پہلے سے کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اِن کی طلب کم ہو رہی ہے اور اِس سے وابستہ روزگار متاثر ہیں۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ ’ماہانہ پرائس انڈیکس‘ کے مطابق ”سیمنٹ پرائس انڈیکس میں گزشتہ سال کی اس بار کے مقابلے میں رواں برس بائیس جون اُنچاس فیصد جیسا غیرمعمولی اضافہ ہوا جو سال بہ سال اُنتالیس فیصد ہول سیل پرائس انڈیکس سے زیادہ ہے۔ مذکورہ انڈیکس کے مطابق سٹیل (فولاد) سیمنٹ کے بعد دوسرا ایسا بڑا شعبہ ہے جو تعمیراتی مواد کی فہرست میں آتا ہے اور اِس شعبے میں بھی ایک ماہ کے دوران اُنچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خود چھتیس فیصد کا ڈبلیو پی آئی تاریخی بلند ترین سطح پر ہے جو جلد ہی خوردہ قیمتوں میں عکاسی کرتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عام آدمی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ عوام کی اکثریت نئے گھر بنائے بلکہ تھوڑی سی مرمت کے اخراجات بھی اِس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب ایک عام آدمی (ہم عوام) کے لئے گھروں کی معمولی تعمیرومرمت (دیکھ بھال) بھی قابل برداشت نہیں رہی۔
سیاسی جماعتیں الفاظ بدل کر جس روٹی روزگار‘ صحت اور سر چھپانے کے لئے گھر کی فراہمی کا وعدہ کرتی ہیں‘ اِن سبھی ضروریات کی لاگت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اختتام پذیر ہوئے گزشتہ مالی سال 2021-22ء کے دوران سیمنٹ کی مقامی اور برآمدی مجموعی طلب 52.89 ملین ٹن رہی جو مالی سال 2020-21ء کے مقابلے 7.91 فیصد کم رہی اور ”آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (APCMA) کے مطابق جون جولائی 2022ء کے دروران سیمنٹ کی طلب میں ایک فیصد کمی ہوئی اور یہ 47.63ملین ٹن رہی۔ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ’اے پی سی ایم اے‘ کا کہنا ہے کہ ایندھن‘ بجلی‘ کوئلے اور دیگر خام مال کی لاگت (قیمتوں) میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے سیمنٹ کی صنعت مشکل حالات سے گزر رہی ہے جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے اِس صورتحال میں ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ ایسی پالیسی وضع کرے جس سے سیمنٹ کی صنعت کو فروغ ملے اور برآمدات برقرار رہیں بصورت ِدیگر سیمنٹ کی قیمت اِس کے اخراجات کی وجہ سے بڑھتی رہے گی۔