خواتین کے اِنسانی حقوق کی مساویانہ بنیادوں پر ادائیگی‘ تحفظ‘ تعلیم و تربیت‘ ہنرمندی اور ترقی کے یکساں مواقع عالمی پیمانہ بن چکا ہے۔ کسی ملک میں خواتین کو درپیش حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے اور اِس سلسلے میں سالانہ رپورٹ بھی مرتب کی جاتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی بیس کروڑ آبادی میں خواتین کی تعداد دس کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ ہے۔ورلڈ اکنامک فورم گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کی جانب سے جاری کی گئی تازہ ترین رپورٹ میں سروے میں شامل 146ممالک میں سے پاکستان 145ویں نمبر پر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر ملک میں خواتین کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی دیکھنا ہے تو اسے یقینی بنانے کے لئے پہلے سے زیادہ کوشش (محنت) کرنا ہوگی۔ مذکورہ درجہ بندی کے مطابق سب سے زیادہ فرق (تضاد) خواتین کو مجموعی طور پر حاصل تعلیمی مواقعوں کا ہے اور اِس درجہ بندی میں پاکستان کا شمار 135ویں نمبر پر کیا گیا ہے‘ جہاں تک سیاسی بااختیاری کا تعلق ہے تو صحت کے شعبے میں پاکستان 143ویں نمبر پر ہے۔ اِس بہتری کی وجہ دوہزار کی دہائی میں متعارف کی جانے والی اصلاحات ہوسکتی ہیں جس کے نتیجے میں خواتین زیادہ تعداد میں مخصوص نشستوں پر قانون ساز ایوانوں (قومی و صوبائی اسمبلیوں) کا حصہ بنیں لیکن اِس پورے عمل کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
الیکشن ایکٹ2017ء میں سیاسی جماعتوں کو عام نشستوں کے لئے انتخابی ٹکٹوں پر پانچ فیصد کا مقررہ کوٹہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس قانون کا اطلاق 2018ء کے عام انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب عام نشستوں (جنرل سیٹ) پر خواتین کی ریکارڈ تعداد یعنی 171 خواتین نے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور صرف آٹھ خواتین نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئیں تھیں لیکن خاص بات یہ تھی کہ انتخابی عمل میں بطور اُمیدوار خواتین کی شراکت صرف انتخابی کامیابی یا ناکامی تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ سیاسی و انتخابی عمل میں شریک ہوئیں اور درجنوں خواتین نے بطور آزاد امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ اِس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ پاکستان بظاہر صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ صنفی فرق کی رپورٹ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اس ضمن میں عملی طور پر مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سال دوہزاردو میں افرادی قوت کی شرکت میں کمی‘ اجرتوں میں اضافے اور سینئر سطح کی افرادی قوت میں بہت کم نمائندگی کے ساتھ‘ سیمیناروں اور پالیسی رپورٹوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور خواتین کو درپیش امتیازی سلوک سے نمٹنا اپنی جگہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ چاہے وہ گھر میں ہوں یا کام کاج کی جگہوں پر۔ا س حوالے سے قوانین موجود ہیں تاہم ضرورت قوانین پر عمل درآمد کی ہے۔
ضرورت مزید قانون سازی کی ہے۔ ضرورت تعلیم اور منظم بیداری مہمات کی ہے جن کا مقصد خواتین سے متعلق سماجی اقدار و روایات کو تبدیل کرنا ہے‘ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے تمام سماجی و اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کو اُن حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں خواتین کو عام زندگی میں اور دفاتر میں خدمات انجام دینے کے حوالے سے برابری کی سہولیات دینے کے سلسلے میں مسلسل کام کیا جارہاہے اور ماضی کے مقابلے میں حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں پاکستان میں خواتین کو سیاست میں جو فعال کردار ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے گزشتہ کچھ عرصے سے ہر حکومت کی کابینہ میں خواتین کو موثر نمائندگی ملتی رہی ہے اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی خواتین نمائندگی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے یعنی عالمی رپورٹوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان میں صنفی مساوات کے حوالے سے حالات بہتر سے بہتر ہوتے جارہے ہیں تاہم اس سلسلے میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔