جدید طبی تحقیق کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ذہنی پریشانی تمام امراض کی ماں ہے۔انسان جب پریشان ہوتا ہے تو سر میں درد ہونے لگتا ہے، پنڈلی اور گٹھنوں میں کھچاؤ محسوس ہوتا ہے، معدہ درست کام نہیں کرتا، قبض کی شکایت رہتی ہے سینے میں بوجھ سا محسوس ہوتا ہے پیٹھ اور کندھوں میں درد رہتا ہے کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ انسان چڑچڑاپن کا شکار ہوجاتا ہے۔معروف معالج اور ذہنی امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی کے مطابق گھروں میں گھٹن کا ماحول، میاں بیوی میں ناچاقی، اولاد کی نافرمانی، مہنگائی، بے روزگاری، ناکامی کا خوف،بدامنی، عدم تحفظ کا احساس ذہنی بیماریوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ذہنی امراض کو اب تک لوگ بیماری تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اس لئے ذہنی امراض کے بروقت اور مناسب علاج پرتوجہ نہیں دی جاتی۔جس کے باعث مرض میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالدمفتی کے مطابق مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہوتے ہی علاج شروع کیا جائے تو اس پر چند دنوں کے اندرقابو پایا جاسکتا۔علاج کرانے میں جتنی تاخیر ہوگی بیماری کی شدت میں اتنا ہی اضافہ ہو گا اور ریکوری میں بھی وقت لگے گا۔ ذہنی بیماری دیگر امراض کی نسبت اس حوالے سے زیادہ خطرناک ہے کہ امراض قلب، گردوں، جگر کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر، دائمی تنگی تنفس،ٹی بی، جذام،کورونا،سرطان اور ایڈز سمیت دوسری عام بیماریوں میں مبتلا افراد کو اپنی بقا کی فکر دامن گیر رہتی ہے وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا سکتے جبکہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد نہ صرف دوسروں کی جان کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنی جان لینے کے بھی درپے ہو جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات ذہنی بیماریوں کا ہی شاخسانہ ہیں۔حالیہ برسوں میں چترال، سوات اور پشاور میں خودکشی کے بیشتر واقعات ذہنی بیماریوں کے سبب رونما ہوئے ہیں۔امتحان میں ناکامی، کم نمبر آنے، گھر والوں کے لعن طعن، عشق میں ناکافی،گھریلو ناچاقی اور بے روزگاری خود کشی کے ان واقعات کے بنیادی اسباب تھے۔بڑھتے ہوئے ذہنی امراض اور اور ان کے جان لیوا نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کو اپنی حکمت عملی میں فوری تبدیلی لانی چاہئے اور صوبے کے تدریسی ہسپتالوں کے ساتھ تمام ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں فوری طور پر ذہنی امراض کے ماہرین کی تعیناتی کرنی ہوگی۔ ذہنی امراض اور ان کے خطرناک نتائج کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو ذہنی بیماریوں کے خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارا طرز زندگی کا اس میں بڑا دخل ہے، کیونکہ ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کما سکے اور یوں اپنے آپ کو اوورلوڈ کرکے نہ صرف اپنی جسمانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ذہنی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیک وقت کئی کام کرنے اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنے کی بجائے جو ہاتھ آیا ہے اور جو کامیابی ملی ہے اس پر صبر و قناعت اختیار کرنے کی روش اپنائی جائے۔ زندگی کی تیز دوڑ میں اپنے آپ کوہلکان کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے، اپنی ضروریات کو ایک خاص حد کے اندررکھا جائے اور تمام خواہشات کی تکمیل کے ناممکن ہدف کے تعاقب میں اپنے آپ کو نہ تھکائیں۔ یہی وہ طرز زندگی ہے جس کے ذریعے ہم ایک طرف اگر ذہنی صحت کو برقرار رکھتے سکتے ہیں تو ساتھ ہی جسمانی بیماریوں سے بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔