امریکا کی ماحولیاتی دہشت گردی 

دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی نے مسائل میں اضافہ کیاہواہے بلکہ اب تو اقوام متحدہ بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیر کے معاملہ میں دنیا خطرے کی سرخ لکیر عبور کرچکی ہے گذشتہ برس اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ”عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او)“ کی طرف سے جو رپورٹ جاری کی گئی اس میں انکشاف کیاگیا کہ گزشتہ 50 برس میں موسمیاتی آفات میں پانچ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔اگرچہ کچھ عرصہ قبل اقوامِ متحدہ کے تحت بین الاقوامی پینل برائے آب و ہوا میں تبدیلی (آئی پی سی سی) کی تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی تھی لیکن اب موسمیاتی آفات کی ایک علیحدہ رپورٹ منظرِ عام پرآئی ہے گرچہ اس رپورٹ کو آئی پی سی سی کی چھٹی دستاویز کے گیارہویں باب میں بھی شامل کیا گیا ہے لیکن اقوامِ متحدہ نے اسے علیحدہ سے بھی جاری کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے انسانی مداخلت سے ہر موسم کا مزاج شدید ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔سائنس دانوں نے آب و ہوا میں تبدیلی اور موسمیاتی شدت کے درمیان واضح تعلق دریافت کیا ہے۔ انہی کی بنیاد پر کئی ماڈل اور سیمولیشن بنائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں دنیا کے مختلف علاقوں میں گرمی کی لہر (ہیٹ ویوز) میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔عین یہی حالت خشک سالی کی بھی ہے جس کا گراف بلند ہورہا ہے۔ اب فضائی رطوبت بڑھ رہی ہے۔ اس سے فوری سیلاب اور بارشی سیلاب کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ پھرسمندری طوفان اور سائیکلون بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔دوسری جانب 1850ء سے اب تک ہمارے سیارے کا اوسط درجہ حرارت 1.1 درجے سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا ہے اور 2030ء تک اس کا اضافہ ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں ایک درجے سینٹی گریڈ کے دسویں حصے کا اضافہ بھی بہت تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں بگڑے ہوئے شدید موسم کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق جیسے جیسے گرمی کی لہریں زیادہ شدید اور طویل ہوتی جائیں گی خشک سالی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔گرمی کی لہروں کے درمیان کم بارش کے ہونے سے زمین کی نمی اور پانی کی فراہمی زیادہ تیزی سے خشک ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین زیادہ تیزی سے گرم ہوتی ہے، اوپر ہوا کو گرم کرتی ہے اور زیادہ شدید گرمی کا باعث بنتی ہے۔انسانوں اور کھیتی باڑی کے لئے پانی کی ضرورت پانی کی فراہمی پر مزید دباؤ ڈالتی ہے جس سے اس کی قلت میں اضافہ ہوتا ہے ان تمام نکات کو کھل کر اقوام متحد ہ کی رپورٹ میں بیان کیاگیاہے ا س سے صورت حال کی سنگینی کااندازہ 
کیاجاسکتاہے اس پس منظر کو بیان کرنے مقصد صرف یہی ہے کہ قارئین کو صورت حال کی نزاکت کااحسا س کرتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کے حوالہ سے حقائق سے آگاہ ہوسکیں چند روز قبل میڈ یا کے ذریعہ ایک اوررپورٹ سامنے لائی گئی جس میں یہ ہولناک ا نکشاف کیاگیاہے کہ امریکہ کی جانب سے خارج کی جانے والی زہریلی گیسوں سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے مختلف ممالک کو 19 سو ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی جس میں 1990 کے بعد سے مختلف ممالک کی جانب سے خارج کی جانے والی زہریلی گیسوں کے دنیا بھر پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔تحقیق کے مطابق زمین کا درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بننے والی گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج امریکہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ان گیسوں کے اثرات سے زیادہ تر غریب ممالک متاثر ہوتے ہیں جہاں ہیٹ ویوز، زراعت اور دیگر مسائل کے باعث عالمی معیشت کو 1990 سے اب تک 19 سو ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوا۔امریکہ کے بعد چین زہریلی گیسوں کے اخراج کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد روس، بھارت اور برازیل بالترتیب تیسرے، چوتھے اور 5 ویں نمبر پر ہیں۔ان پانچوں ممالک کے باعث
 1990 سے اب تک دنیا بھر میں مجموعی طور پر 6 ہزار ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔تحقیقی ٹیم کے قائد اور امریکہ کے ڈارٹ ماؤتھ کالج کے ماہر کرس کالان نے بتایا کہ نقصانات کے اعدادوشمار بہت زیادہ ہیں، یہ حیران کن نہیں کہ امریکہ اور چین اس حوالے سے سرفہرست ہیں، مگر اعدادوشمار چونکا دینے والے ہیں ان کے بقول پہلی بار ہم نے ثابت کیا ہے کہ ایک ملک کی جانب سے خارج کی جانے والی گیسوں سے کس طرح کا نقصان ہوسکتا ہے۔اس تحقیق میں مختلف ماڈلز کو اکٹھا کیا گیا اور مختلف عناصر جیسے گیسوں کے اخراج، مقامی موسمیاتی حالات اور اقتصادی تبدیلیوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔محققین نے 1990 سے 2014 کے دوران مختلف ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امیر ممالک جیسے شمالی امریکہ اور یورپ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بنیادی کردار ادا کررہے ہیں، مگر انہیں معاشی طور پر زیادہ نقصان نہیں ہوا۔اس کے برعکس غریب اور متوسط ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔تحقیق کے مطابق وہ ممالک جو پہلے ہی زیادہ گرم موسم کا سامنا کرتے تھے، اب وہاں گھر سے باہر کام کرنا زیادہ مشکل ہوچکا ہے، ہیٹ ویوز سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فصلوں کی کاشت بھی مشکل ہوچکی ہے۔محققین کے مطابق اس حوالے سے بہت زیادہ نا انصافی ہے، امریکہ جیسے ممالک کم آمدنی والے ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں مگر وہ خود معاشی طور پر زیادہ فوائد حاصل کررہے ہیں۔مختلف ممالک اور ماحولیاتی ورکرز کی جانب سے زہریلی گیسوں کے اخراج سے ہیٹ ویوز، سیلاب اور قحط سالی جیسی آفات سے ہونے والے نقصانات پر امیر ممالک سے تلافی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔مگر امریکہ کی جانب سے اس طرح کے فنڈ کے قیام کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس صورت میں اسے ہر طرح کے نقصانات کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔گویا دنیا کے بڑے ممالک اور ان کاسرخیل امریکا بہادر اس وقت کھلے عالم ماحولیاتی دہشتگردی میں پوری طرح سے ملوث ہے ہم جیسے پسماندہ ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اربوں ڈالر کانقصان دے کر یہی ممالک امداد اورقرض کے نام پر چندکروڑ ڈالر ہمارے کشکول میں ڈال کرہم پر بہت بڑا احسان کرتے ہیں اس رپورٹ کے بعد دنیا کے پسماندہ ممالک کو امریکہ اور اس کے ساتھ ساتھ آلودگی پھیلانے والے دیگر ممالک کے خلاف بھی اقوام متحدہ اورعالمی عدالت انصاف کافورم اب فی الفور استعمال کریں وگرنہ بہت دیرہوجائے گی ویسے اب بھی بہت دیر ہوچکی ہے۔