علاج: آسان حل

خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی سہولیات اور طب (میڈیکل و ڈینٹل) تعلیم کے شعبوں میں سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ’نجی شراکت داری‘ میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اِس مقصد کے لئے مزید58 سرکاری علاج گاہوں کو نجی شعبے کے حوالے یعنی ”آؤٹ سورس“ کیا جائے گا تاکہ ”سرکاری و انسانی وسائل سے بہتر استفادہ ہو سکے اور ادویات کی دستیابی کے ذریعے مریضوں کی دیکھ بھال بہتر بنائی جا سکے۔ اس کے علاوہ آلات کی دیکھ بھال اور ضروریات کی بروقت یقینی بنانے کے ساتھ ہنگامی صورتحال میں علاج کی سہولیات مستحکم بنانا مقصود ہے۔ آؤٹ سورس کئے جانے والے ہسپتالوں کی شناخت ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروس خیبر پختونخوا ڈاکٹر شاہین آفریدی کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی نے کی ہے جو نامزدگیوں سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کے لئے تخلیق کی گئی ہے تاکہ ’یونیورسل ہیلتھ کوریج‘ کے اہداف حاصل کئے جا سکیں۔ مذکورہ کمیٹی نے ایسی سرکاری علاج گاہوں کی نشاندہی کی جن کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہے اور اِس سلسلے میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے لئے ضلعی صحت معلوماتی نظام (ڈی ایچ آئی ایس) اور انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ (آئی ایم یو) کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے ’آؤٹ سورسنگ‘ کی سفارش کی گئی ہے۔ فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ ”آؤٹ سورسنگ کے ذریعے دور دراز علاقوں میں صحت کی معیاری خدمات فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ سرکاری علاج گاہوں کے مسائل ایک جیسے ہیں جہاں علاج کے لئے سہولیات‘ بیش قیمت آلات اور تربیت یافتہ عملہ تو موجود ہے لیکن اِن سہولیات سے مریضوں (عوام) کو فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ نجی شعبے کے حوالے کرنے کی وجوہات یہ بتائی جا رہی ہیں کہ موجودہ نظام میں امراض کی تفتیش کے لئے درکار آؤٹ آف آرڈر مشینوں‘ عملے کی غیر حاضری‘ ادویات کی فراہمی اور انتظامی امور کی وجہ سے ہسپتالوں میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن اگر نجی شعبے کی شراکت داری سے سرکاری علاج گاہوں میں خدمات فراہم کی جائیں تو نہ صرف علاج معالجے کی بلا تعطل سہولیات عملاً ممکن ہو جائیں گی بلکہ طبی عملے کی حاضری اور ادویات کی دستیابی کے لئے آلات کی دیکھ بھال بھی یقینی بنانے کا ہدف بھی حاصل ہو جائے گا۔ بنیادی مقصد علاج کو ممکن اور اِس کے معیار کو بہتر بنانا ہے جس کے لئے ”آؤٹ سورس سہولیات“ سے استفادہ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے عملے کی تربیت‘ معیارات اور پروٹوکولز کا تعین‘ کڑٖی نگرانی اور مریضوں کی رائے (فیڈبیک) پر منحصر شراکت داری کا نظام وضع کیا جائے گا یعنی نجی شعبے کی کارکردگی پر بھی لازماً نظر رکھی جائے گی۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ سرکاری علاج گاہوں اور سرکاری علاج گاہوں کے جملہ وسائل بشمول افرادی قوت اور آلات کسی بھی نجی شعبے کے حوالے نہ کئے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسری اہم بات ”عوام کی رائے (فیڈبیک)“ سے متعلق ہے۔  سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی سرکاری اِدارے کی کارکردگی وہاں سزأ و جزأ لاگو کئے بغیر بہتر نہیں بنائی جا سکتی اور یہی وہ بنیادی کمی ہے‘ جس کی وجہ سے صرف علاج گاہیں ہی نہیں بلکہ دیگر سرکاری محکموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشانات لگے ہوئے ہیں! 
سرکاری اداروں کی جزوی نجکاری ہیلتھ فاؤنڈیشن (ایچ ایف) کے ذریعے کی جائے گی اور ماضی میں اِس طرح کے معاہدوں (خیبر پختونخوا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ) کے تحت نجی کمپنیوں کی طرف سے پیشکشوں کو قبول کیا جائے گا جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مزید علاج گاہیں یا علاج معالجے کی سہولیات نجی شعبے کے حوالے کرنے سے قبل‘ ماضی میں کی گئی اِس قسم کی نجکاری کے حاصل پر غور کیا جائے کہ اِس طرح کی حکمت عملی سے کس فریق کو زیادہ فائدہ ہوا؟ ذہن نشین رہے کہ آؤٹ سورسنگ کے باوجود علاج کے مراکز بظاہر محکمہ صحت ہی کے کنٹرول میں رہتے ہیں۔ جس کی متعلقہ ضلعی صحت افسران (ڈی ایچ اوز) اور ہسپتالوں کی جائزہ کمیٹیوں (آر ایم سیز) نگرانی کرتے ہیں۔ ڈی ایچ او کی سربراہی میں ہر ضلع کے‘ آر ایم سی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر‘ نجی فرم کے پروجیکٹ ڈائریکٹر‘ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفس کے نمائندے اور ضلعی ماہرین اِس نگرانی کے شریک اراکین ہوتے ہیں مذکورہ کمیٹی ہر تین ماہ کے اندر لازماً ملاقات کرتی ہے اور مقامی سطح پر نگرانی اور پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ ہیلتھ فاؤنڈیشن اور انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ صوبائی سطح پر ان کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔