پشاور کہانی: جادوئی حل

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے معروف شہری منصوبہ بندی کے ماہر ’ولیم جان مچل نے کہا تھا کہ ”کسی بھی ایسے شہر میں ٹریفک کے مسائل کا کوئی بھی جادوائی حل نہیں ہو سکتا جہاں ہر کسی کو جلدی ہو اور بیشتر ٹریفک مسائل اِس لئے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ بیک وقت بہت سے لوگ کسی ایک ہی مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔“ معلوم ہوا کہ ٹریفک مسائل کا ’جادوئی حل‘ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اِس اجتماعی مسئلے کے بارے میں شعور‘ آگاہی اور احساس ِذمہ داری پیدا کی جائے۔ جس طرح گاڑی خریدنے سے قبل سوچ بچار کا مظاہرہ کیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح گاڑی چلانے سے قبل بھی قانون و قواعد پر عمل درآمد کی صورت ذمہ داری کا مظاہرہ ہونا چاہئے لیکن جب ہم پشاور کے طول و عرض میں ٹریفک کی مایوس کن صورتحال دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک کو جس قدر منظم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اُسی قدر غیرمنظم ہو رہی ہے اور یہ بات اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ پشاور میں ہر خوبی و سہولت کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی خامی جڑی ہوئی ہے جس سے باآسانی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر حکومتی فیصلہ سازی سے عوامی سطح تک  شعور‘ آگاہی اور احساس ِذمہ داری مدنظر رکھا جائے اور اِسے بطور یاد دہانی اُجاگر کیا جائے۔

 پشاور کے ٹریفک مسائل کی بنیادی وجہ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی کمی یعنی صرف تربیت یافتہ افرادی وسائل کا نہ ہونا نہیں بلکہ ٹریفک قواعد کی قانون شکنی کو قانون شکنی نہ سمجھنے کا ”خطرناک رجحان“ بھی پایا جاتا ہے اور اِس قسم کے منفی روئیوں کا مظاہرہ سب سے زیادہ اندرون شہر دیکھنے کو ملتا ہے جہاں اکا دکا ٹریفک اہلکار اپنے تیئں کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جہاں پورا شہر ہی ٹریفک قواعد پر عمل درآمد نہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھا ہو وہاں محض ’پولیسنگ‘ سے صورتحال بہتر نہیں بنائی جا سکتی۔ پشاور کی ٹریفک پولیس  نے رواں برس کی پہلی ششماہی میں پشاور میں مختلف علاقوں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر 2لاکھ 97ہزار 913افراد سے قریب سات لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا یعنی ہر ماہ اوسطاً ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے سے زائد جرمانہ وصول کیا جا رہا ہے۔ سٹی ٹریفک پولیس آفس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ہیلمٹ استعمال نہ کرنے پر پشاور میں 80ہزار 341 موٹر سائیکل سواروں کو جرمانہ کیا گیا لیکن اب بھی موٹرسائیکل سواروں کی اکثریت ہیلمٹ استعمال نہیں کرتی۔ نو پارکنگ زون میں اپنی گاڑیاں پارک کرنے پر 29ہزار 945افراد کو جرمانہ کیا گیا لیکن ’نو پارکنگ زونز‘ میں گاڑیاں کھڑی کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ لین ڈسپلن کی خلاف ورزی پر 32ہزار 298 افراد کو جرمانہ ہوا لیکن اِس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی نہیں ہو رہی۔ 

پشاور میں ٹریفک سگنلز اکا دکا ہیں اور اندرون شہر کے لوگ ٹریفک سگنلز سے آشنا ہی نہیں‘ ٹریفک پولیس اہلکاروں نے سگنلز کی خلاف ورزی پر 12ہزار 222 اور ون وے روٹس کی خلاف ورزی پر 9 ہزار 934 ڈرائیورز پر جرمانے عائد کئے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے پر 7888‘ ہزار سے زائد بنا لائسنس موٹر سائیکل سوار‘ چھ ہزار سے زائد کالے شیشے‘ آٹھ سو سے زائد کو دوران ِڈرائیونگ موبائل فون پر بات کرنے پر اور ایک ہزار سے زائد کو کم عمر ڈرائیونگ پر جرمانہ کیا گیا۔ ٹریفک پولیس نے سال کے پہلے چھ ماہ میں اوور لوڈنگ پر چار ہزار سے زائد اور موٹر سائیکلوں پر ون وہیلنگ کے 271 جبکہ سیٹ بیلٹ استعمال نہ کرنے پر ایک ہزار سے زائد‘ تجاوزات کے الزام میں چار ہزار تیس سو سے زائد دکانداروں کے علاوہ ڈرائیونگ لائسنس طلب کرنے پر دکھانے سے انکار پر قریب سات ہزار ڈرائیوروں پر بھی جرمانہ عائد کیا اور اِس پوری قانون شکنی کو بغور دیکھا جائے تو اِس رجحان کا علم ہوتا ہے کہ اہل پشاور کی اکثریت کیلئے ٹریفک قواعد غیرضروری ہیں اور اِنہوں نے جس ایک بات کا عزم کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی صورت ٹریفک کے قواعد عمل نہیں کرنا۔ 

ٹریفک سے متعلق منصوبہ بندی کرنے والوں نے ہیلپ لائن کا اجرأ بھی کر رکھا ہے جس پر چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر 2 ہزار 457 ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں جن پر کاروائی کرتے ہوئے 2 ہزار 289 شکایات حل کی گئیں جبکہ 168 ٹیلی فون کالز ٹریفک نظام میں اصلاحات کیلئے مختلف تجاویز پر مبنی تھیں جو کہ خوش آئند ہے‘ عوام کی جانب سے پشاور کی ٹریفک پولیس کو دی جانے والی سرفہرست تین تجاویز میں ڈرائیونگ لائسنس کے عمل کو آسان بنانے‘ ٹریفک کی روانی اور جرمانے کی وصولی کے تصدیقی عمل کے بارے میں تھیں‘ پشاور کے ٹریفک پولیس نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بھی ٹریفک نظام کو مربوط و منظم بنانے کی کوشش کی ہے اور وقتاً فوقتاً عوام کی رہنمائی کی جاتی ہے تاکہ ٹریفک معطل ہونے سے بچا جا سکے تاہم جب تک ٹریفک کے انتظام و انصرام میں ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ٹریفک سگنلز اور ٹریفک سائن بورڈز آویزاں نہیں کئے جائیں گے۔

ٹریفک جرمانوں کے نظام کو کلوزسرکٹ کیمروں سے منسلک نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک بہتری کی ہر کوشش ناکافی رہے گی۔پشاور میں ٹریفک کا نظام بالعموم اور بالخصوص توجہ طلب ہے جہاں تک تجاوزات کی بات ہے تو اِس کیخلاف کاروائی اُن اوقات میں نہ کی جائے جب بازار کھلے ہوتے ہیں بلکہ رات کے اوقات میں جبکہ بازار بند ہوتے ہیں اور اگر بھاری مشینری کے استعمال سے نشان شدہ تجاوزات ہٹائی جائیں تو چند بازاروں میں کاروائی کا ’ڈومینو ایفکٹ‘ اندرون و بیرون شہر دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’ڈومینو ایفکٹ‘ اُس عمل کو کہتے ہیں جو خود بخود آگے بڑھتا چلا جائے اور ایک حرکت یا عمل سے اُسی قسم کا دوسرا عمل جنم لے‘ اگر ہم انسانی معاشروں اور زندگیوں کو دیکھیں تو یہی ’ڈومینو ایفکٹ‘ کئی صورتوں میں کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ اگر نیت ارادہ اور عزم موجود ہے تو ’ڈومینو ایفکٹ‘ ہی پشاور کی ٹریفک سے جڑے جملہ مسائل کا ”جادوئی حل“ ثابت ہو سکتا ہے۔