بارش کبھی بھی سانحہ یا باعث ِسانحہ نہیں ہوتی البتہ اِس نعمت ِخداوندی سے فائدہ اُٹھانے کیلئے اگر عقل و فہم کے استعمال سے منصوبہ بندی نہ کی جائے تو نتیجہ مختلف ظاہر ہو سکتا جیسا کہ رواں مون سون بارشوں (سیزن) کے آغاز اور اِس کے دوسرے و تیسرے سلسلے کے بارے میں پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ کسی بھی موسم میں بارش سے پیدا ہونے والا سانحہ درحقیقت ’قابل اجتناب‘ ہوتا ہے لیکن اگر اِسے قدرتی آفت سمجھتے ہوئے ہار نہ مان لی جائے۔ پاکستان میں کے کسی بھی حصے میں بارش وہاں کی مقامی حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تیاریوں کا بھانڈا پھوڑ دیتی ہے جیسا کہ سترہ جولائی کے روز کراچی میں دیکھا گیا جہاں کے ’شادمان ٹاؤن‘ میں زیر تعمیر نالے کے ایک کھلے ہوئے مین ہول میں موٹر سائیکل گرنے سے ایک ہی خاندان کے چار افراد کو مصائب سے دوچار ہونا پڑا اور یہ انتہائی افسوسناک و قابل مذمت واقعہ ہے۔ ماں ڈوب کر ہلاک ہوگئی جبکہ اس کا دو ماہ کا بیٹا نالے میں لاپتہ ہوگیا۔ موٹر سائیکل پر سوار والد کسی طرح اپنی دو سالہ بیٹی کو بچانے میں کامیاب ہوگیا اور نالے سے نکلنے میں کامیاب رہا۔
یہ مکمل طور پر قابل اجتناب المیہ ہے اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ اگر شہر کے حکام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے اور ایک سائن بورڈ لگاتے تو شاید یہ حادثہ نہ ہوتا۔ ماضی میں بھی اسی طرح کے حادثات جانی و مالی نقصانات کا باعث رہی ہیں لیکن پاکستان میں انسانی زندگی کی خاطرخواہ اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی حکام کی ’مجرمانہ غفلت‘ سے جانی و مالی نقصانات کا باعث بننے والوں کو خاطرخواہ سزا دی جاتی ہے۔ کراچی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیونکہ رات گئی بات گئی! سمجھنا ہوگا کہ بارش سانحے اور آفت کا باعث کیوں بنتی ہے اور صرف کراچی ہی نہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اکثر شاہراؤں اور نکاسیئ آب کے نالے نالیوں یا پلوں پر باڑ نہیں لگائی جاتی جبکہ بارش کی وجہ سے جب جھل تھل ایک ہوتا ہے تو ایسے موت کے کنویں دکھائی ہی نہیں دیتے۔ تعمیراتی کاموں کا ملبہ بھی گلی کوچوں اور شاہراؤں کے کنارے ڈال دیا جاتا ہے جبکہ اِس سلسلے قوانین و قواعد موجود ہیں اور اِن کے مطابق کاروائی ہونی چاہئے۔پاکستان میں بغیر باڑ والے کھلے نالوں کا نظارہ ایک معمول کی بات ہے۔ کسی بھی شہر کے میونسپل حکام اور تعمیراتی ادارے انسانی جان و مال کے لئے ممکنہ خطرے کے طور پر اِنہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ اہم سڑکوں کے ساتھ کھلے مین ہول اور نالیاں حسب ِمعمول کھلی رکھی جاتی ہیں جو کم روشنی یا بارش کی صورت مشکل سے نظر آتی ہیں۔
علاوہ ازیں برسات کے موسم میں سٹریٹ لائٹس کا نظام بھی مفلوج ہو جاتا ہے اور بارش کے چند قطرے گرتے ہی یا تو سٹریٹ لائٹس کام نہیں کرتیں یا بجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی ہے۔ مون سون سیزن سے نمٹنے کے لئے تمام متعلقہ حکومتی اداروں بالخصوص ہنگامی حالات سے نمٹنے کے شراکت داروں کو ’اجتماعی ناکامی‘ کامیابی سے تبدیل کرنا پڑے گی۔ کراچی کے جس نالے میں ایک ہی خاندان کے افرادکو حادثہ پیش آیا وہ گزشتہ کئی ماہ سے کھلا پڑا تھا جسے بند کرنے یا ڈھانپنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یہ مخصوص حصہ مہینوں پہلے کھودا گیا تھا لیکن حکام یا ذمہ دار فرم نے اسے بند یا ڈھانپنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کوئی بھی شہر ہو‘ بلدیاتی اداروں کی خدمات کا معیار مثالی نہیں ہے اور وقت کے ساتھ متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کا بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ کراچی ہی کی موسیٰ کالونی میں ایک کثیرالمنزلہ عمارت کو اگر بروقت خالی نہ کروایا گیا ہوتا تو جانی نقصانات زیادہ ہو سکتے تھے اور شادمان سانحے کے صرف ایک دن بعد موسیٰ کالونی مذکورہ خالی عمارت گر گئی لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ عمارت ایک دن پہلے ہی خالی کروا لی گئی تھی۔
مذکورہ عمارت کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ پرانی نہیں تھی لیکن بارشوں کے دوران اس میں دراڑیں پڑ گئیں جس سے شہر کی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نئے تعمیراتی معیارات پر سوال اُٹھتا ہے۔ اسی روز ایک اور واقعے میں دو بچے کراچی کے نواح میں سومر گوتھ میں تالاب میں ڈوب گئے۔ اگرچہ میونسپل حکام اپنے فرائض میں غفلت برت رہے ہیں لیکن کراچی کا برقی نظام بھی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ اٹھارہ جولائی کو لیاری میں ایک اور شخص کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوا اور اُسی دن سولجر بازار میں چھت گرنے سے ایک مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اٹھارہ جولائی ہی کے روز بلوچستان کے پنجگور میں دو بچوں سمیت کم از کم چھ افراد سیلاب کی زد میں آ گئے اور بجلی کے دو بڑے کھمبے (پائلون) گرنے کے بعد پورا ضلع تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں‘ جو انتہائی خطرناک ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کو بہتر بنیادی ڈھانچے اور بہتر میونسپل و بجلی خدمات کی ضرورت کے ساتھ ساتھ انسان جانوں کی حفاظت کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔