جرمنی میں قائم غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے معاشی طور پر دیوالیہ پن کا شکار دنیا کے سات ممالک کی فہرست جاری کی ہے جن میں سری لنکا،نیپال لبنان، میکسیکو، روس، آئس لینڈ اور ارجنٹینا شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مالی بدعنوانیوں کو دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔عالمی ادارے نے دس ایسے ممالک کی فہرست بھی جاری کردی ہے جو کرپشن میں سرفہرست ہیں ان۔ ممالک میں اذربائیجان، قازقستان،لبنان، ایل سلواڈور،گوئٹے مالا،روس، برازیل، میکسیکو،کولمبیا اور عراق شامل ہیں، مالیاتی امور پر نظر رکھنے والے اداروں نے مستقبل قریب میں دنیا کے 104 ممالک کے دیوالیہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے جن میں امریکہ جیسی سپر پاور بھی شامل ہے۔دیوالیہ پن کی عمومی تعریف یہ ہے کہ جو ملک، ادارہ یا تنظیم اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہ رہے اسے عدالت دیوالیہ قرار دیتی ہے۔دیوالیہ قرار دئیے جانے والے ادارواں اور کمپنیوں کے اثاثے بیچ کر قرضے وصول کئے جاتے ہیں تاہم کوئی ملک اگر دیوالیہ قرار پائے تو اس سے قرضوں کی وصولی کے لئے کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔
دیوالیہ قرار دئیے جانے پر اس ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے اور کوئی مالیاتی ادارہ یا ملک اسے قرضہ نہیں دیتا۔کچھ عرصہ قبل افریقی ملک ملاوی بھی کرپشن کی زد میں آکر دیوالیہ ہو گیا تھا۔ ملک کے صدر مستعفی ہو گئے۔ خاتون نائب صدر نے عنان اقتدار سنبھالی۔اس نے مالی اصلاحات کا اعلان کیا۔ اپنی اور تمام وزراء کی تنخواہوں میں نصف سے زیادہ کمی کردی۔ ناگزیر ضرورت کے سوا تمام سرکاری اخراجات ختم کر دئیے۔سرکاری اداروں کی گاڑیاں نیلام کردیں اوران پیسوں سے راشن خرید کر غریبوں میں تقسیم کردیا۔سخت مالیاتی نظم و ضبط کی بدولت چند سالوں کے اندر انہوں نے اپنے ملک کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنادیا۔ہمارے ہاں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کچھ عرصے سے یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کا انجام بھی سری لنکا جیسا تو نہیں ہوگا؟سوال بہت سنجیدہ ہے جس پر ارباب اختیار و اقتدار کو ضرور غور کرنا چاہئے۔سری لنکا اور نیپال کی معیشت کا دارومدار سیاحت اور چائے کی برآمد پر تھا۔ کورونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا اور اس پر انحصار کرنے والے ممالک کا دیوالیہ نکل گیا۔
پاکستان نے کورونا وبا کے دوران اپنی معیشت کو سنبھالے رکھا۔ہمارے پاس زرخیز زمین ہے، جفاکش افرادی قوت ہے۔ترقی کے تمام وسائل ہمارے پاس موجود ہیں۔اس وسائل کو قومی ترقی کے لئے بروئے کار لانے، غیر ضروری اخراجات کے خاتمے، کرپشن پر قابو پانے اور جامع اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے ہم اپنے معاشی مسائل پر چند سالوں کے اندر قابو پاسکتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت وقتی حل نکالنے کی بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات شروع کرے اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موجودہ حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے مشکل فیصلوں کا آغاز کر دیاہے جس کے آنے والے دنوں میں دوررس اثرات مرتب ہوں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل حالات سے نکلنے کے لئے مشکل فیصلے ناگزیر ہوتے ہیں اور معمول کے حالات میں معمول کے اقدامات ہی کافی ہوتے ہیں۔