تمباکو نوشی

تمباکو نوشی کی روک تھام ضروری ہے جو زندگی اور موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کرنے جیسا اہم معاملہ ہے۔ عالمی ادارہئ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ”تمباکو دنیا بھر میں ہونے والی ہر دس اموات میں سے ایک بالغ شخص کی موت کے لئے ذمہ دار ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ہر سال قریب پچاس لاکھ اموات تمباکو نوشی سے ہوتی ہیں اور اگر تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو اندازہ ہے کہ آئندہ پچیس سال میں تمباکو نوشی سے سالانہ اموات کی تعداد دوگنی ہو جائے گی اور صرف اموات ہی نہیں بلکہ مزید لاکھوں افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے جو اُن کے لئے دائمی معذوری کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ طبی تحقیق لمحہئ فکریہ ہے کہ کم سگریٹ پینے والے افراد کا بھی پھیپھڑوں کے سرطان (کینسر) میں مبتلا ہونے کا خطرہ اُسی طرح ہوتا ہے جس طرح زیادہ تمباکو نوشی کرنے والوں کا‘ اِس لئے تمباکو نوشی کسی بھی صورت کرنا صحت کیلئے محفوظ نہیں اور اِس کی وجہ سے صرف پھیپھڑوں (نظام تنفس) ہی نہیں بلکہ دیگر جسمانی اعضا جیسا کہ دل اور گردے کی بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔

 طبی تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی کرنے والوں میں فالج اور دل کے امراض کے امکانات بارہ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ جنرل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (JPMA) میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں ماہرین نے محتاط اندازے کے مطابق اعدادوشمار مرتب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”پاکستان میں 36 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں“ جبکہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے مرد و خواتین طبقے میں اکثریت جامعات (یونیورسٹیز) میں زیرتعلیم طلبہ ہیں جو اپنی تعلیم کے دوران سگریٹ نوشی یا تو شروع کرتے ہیں یا پھر اِسے باقاعدگی سے اپنی عادات کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ جامعات کے طلبا میں کم سے کم 15 فیصد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صرف انتیس فیصد طالب علم پورا سگریٹ پیتے ہیں جبکہ پچیس فیصد طلبہ تمباکو نوشی میں سو یا اِس سے زیادہ سگریٹ پیتے ہیں اور یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد اِس سلسلے کو جاری رکھتے یا نہیں اِس بارے تحقیق موجود نہیں ہے۔ مجموعی طور پر، تیئس فیصد طلبہ (جن میں اکتیس فیصد مرد اور چھ فیصد خواتین شامل ہیں) سولہ سے سترہ سال کے درمیان تمباکو نوشی کرتی ہیں‘ اِس لئے اگر عمر کے اِس حصے میں نوجوانوں پر نظر رکھی جائے اور اگر اُن کی تمباکو نوشی کے وسائل تک رسائی محدود کی جائے تو اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر 63فیصد تمباکو نوشی میں کمی آئے گی۔ 

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے تمباکو نوشی کی تشہیر پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن سوشل میڈیا پر اِس پابندی کا مذاق اڑایا جاتا ہے لہٰذا یکساں ضروری یہ بھی ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا پر تشدد اور نفرت پھیلانا جرم ہے بالکل اِسی طرح تمباکو نوشی کی ترغیب دینے والوں کے خلاف بھی حسب قانون سخت کاروائی ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا کسی مہم کو چلانے کیلئے ہیش ٹیگ (Hashtag) کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کوئی بھی ہیش ٹیگ عام نہیں جیسا کہ #QuitSmoking یا #StopSmoking وغیرہ۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک (عالمی سطح پر) 31 مئی کا دن ’تمباکو نوشی کے خلاف شعور اُجاگر کرنے کے طور پر مناتے ہیں لیکن یہ دن بھی پاکستان میں انتہائی خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی یا تمباکو نوشی کے بارے میں ذرائع ابلاغ بہت ہی کم بات کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر وعدہ کر رکھا ہے کہ سال 2025ء تک ملک میں تمباکو نوشی کی شرح میں 30 فیصد کمی لائی جائے گی اور اِس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کو اقوام متحدہ نے سراہا بھی ہے تاہم تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور بالخصوص نوجوانوں میں اِس کا بڑھتا ہوا استعمال تشویشناک ہے۔قومی فیصلہ سازوں کو توجہ دینا ہوگی کہ تمباکو کی مقامی طور پر کاشتکاری اور اِس کی ارزاں و باآسانی دستیابی کو روکے بغیر اِس علت سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

 تمباکو کی کاشت اب بھی دیگر فصلات کے مقابلیمنافع بخش ہے جس کی حوصلہ شکنی کے لئے سبسڈی کے ذریعے کاشتکاروں کو دیگر (کم منافع بخش) فصلوں کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے تاکہ صرف سگریٹ ہی نہیں بلکہ دیگر طریقوں سے استعمال ہونے والے تمباکو کے استعمال کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔ تمباکو نوشی شروع کرنے والے نوجوانوں سے پوچھ گچھ پر مبنی تحقیق سے اِس کے محرکات کا عمل ہوا جس میں تفریح طبع دس فیصد جبکہ امتحانات کا دباؤ کم کرنے کے لئے سگریٹ کا استعمال پچاس فیصد پایا گیا۔ یہ محرکات توجہ طلب ہیں کیونکہ یہی تمباکو نوشی بعدازاں منشیات کے استعمال پر بھی اکساتی ہے اور اندازہ ہے کہ دس سے بارہ فیصد نوجوان تمباکو نوشی کے بعد کسی نہ کسی نشہ آور چیز کا استعمال کرتے ہیں اور یہ شرح مردوں کے مقابلے خواتین میں زیادہ پائی گئی ہے! دوست احباب کی محفلوں یا گھر میں تمباکو نوشی کا ماحول دیکھنے والے اِس لت میں نسبتاً زیادہ گرفتار ہوتے ہیں۔ 

اِس لئے نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے والدین اساتذہ اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور جہاں کہیں کسی نوجوان کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھا جائے تو فوراً اُسے متنبہ کرنا چاہئے کہ ایسا کرنا اُس کی صحت و تندرستی کے لئے درست نہیں۔ سگریٹ تمباکو نوشی کا بنیادی ذریعہ ہے جس کی کم عمر نوجوانوں (نابالغوں) کو فروخت قانوناً جرم ہے لیکن اِس پر بھی خاطرخواہ سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سگریٹ نوشی کا ناقابل یقین حد تک نقصان دہ عمل نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور خاصا مقبول ہے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ آج کا نوجوان اِس حد تک ذہنی دباؤ کا شکار کیوں ہے کہ وہ اِس کے مضر صحت ہونے کے بارے میں جانتے ہوئے بھی سگریٹ نوشی کرتا ہے۔ اگر سگریٹ کی باآسانی دستیابی مشکل بنائی جائے اور بالخصوص تعلیمی اداروں کے اندر اور آس پاس کا ماحول سوفیصد ”سگریٹ فری“ہو تو اِس سے خاطرخواہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ بنیادی ضرورت سگریٹ نوشی جیسے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو بعدازاں منشیات کے استعمال کا باعث بنتی ہے۔