روشن لوگ 

جب بھی معاشرے میں اندھیرے بڑھنے لگتے ہیں قدرت کی طرف سے کچھ ایسی شخصیات جنم لیتی ہیں جو اپنے اجلے کردار سے ہرسو روشنی پھیلانے کاباعث بنتی ہیں یہ قدرت کے ہی چنیدہ لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح کے  لوگ یقینااپنی ذات میں انجمن ہوا کرتے ہیں ایسے روشن لوگ اپنے کردار اورعمل سے معاشرتی تاریکیاں ختم کرنے میں شاندارکردارادا کرتے ہیں‘ اگرہم اپنے خطے کی بات کریں تو یہاں بھی ایسے روشن لوگوں کی کمی نہیں رہی‘ایسی روشن شخصیات کی بدولت ہم مختلف ادوار میں قعر مذلت میں گرنے سے بچتے رہے ہیں‘خیبرپختونخوا کی دینی شخصیات نے ہر دو ر میں پختونوں کی رہنمائی کے لیے بہترین انداز میں کام کیاہے‘ انہی بابرکت بزرگوں میں سے ایک پنج پیر سے تعلق رکھنے والے شیخ القرآن مولانا محمد طاہر بھی تھے مولانا طاہر نے اپنے وقت میں بعض ایسی رسومات کے خلاف آواز بلندکی جن کے خلاف بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن ان کالگایا ہوا ننھا سا پودا آج تناور درخت بن چکاہے‘ ان کی زندگی کے حوالہ سے نوجوان نسل میں تجسس بڑھتاجارہاہے چنانچہ ان کی زندگی اورخدمات پر اب تک دو جامعات نے پی ایچ ڈی مقالوں کااہتمام کیا‘علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریاض احمد نے بھی ان کی تحریک پر پی ایچ ڈی کی ہے ان کے پی ایچ ڈی مقالے کو بھارت کی مشہور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ اورشاہ ولی اللہ ریسرچ کونسل کے سربراہ معروف سکالر ڈاکٹر یاسین مظہرصدیقی کو بھی ارسال کیاگیا جس پر ان کی طرف سے جاندار تبصر ہ سامنے آیا واضح رہے کہ ڈاکٹریاسین مظہرصدیقی چندہفتے قبل اس دار فانی سے کوچ کرچکے ہیں‘ وہ اپنے وقت کے سب سے بڑے سیرت نگار تھے۔انہوں نے مولانا محمد طاہرکی خدمات کے حوالہ سے مقالے کو شانداز علمی تحقیق قراردیتے ہوئے ان کی تحریک سے استفادے پربھی زور دیاہے ان کاکہناہے کہ شیخ القران مولانا محمد طاہر کے دعوتی اسلوب کی تقلید کی جانی چاہئے‘اگر مولانا محمد طاہر کی زندگی اوردینی خدمات کاجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اس خطے میں فہم القران کو متعارف کرایا‘ گویا وہ یہاں پر فہم القران تحریک کے بانی تھے انہوں نے روایتی پختونوں اوران کے بچوں کو قران سکھانے کے ساتھ اس پر عملد رآمدکے لیے بھی تیار کیا کیونکہ قرآن وہ کیمیا ہے جو صرف مشرکین مکہ کے لیے ہی نازل نہیں ہوا تھا یہ ہر دوراور ہر عہد کے انسانوں کے لیے تھا شیخ القرآن نے ہر مسئلہ کاحل اورفارمولا قرآن سے ڈھونڈااور روشناس کرایا‘ یہ پختون بیلٹ کااعزاز ہے کہ ایک ایسا شخص جو کسی دینی نہیں بلکہ ایک روایتی یوسفزئی پختون زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا لیکن دین کے حوالہ سے وہ اس خطے کی پہچان بن گیا‘ انہوں نے ایک سال مکہ مکر مہ میں امام انقلاب مولانا عبیدا للہ سندھی کی شاگردگی میں گذارا‘ ا سکے بعد حدیث اوردیگر علوم کے حصول کے لیے مدینہ منورہ میں دوبڑے علمائے کرام سے استفادہ کیا ان میں سے ایک ترکی کے جلاوطن عالم دین تھے جو مولانا سندھی کے دوست تھے دوسرے اندلس سے آئے ہوئے نامور عالم دین شیخ ہمدان تھے‘ شیخ القرآن جب وطن لوٹنے کے لیے اپنے استاد مولانا سندھی کی خدمت میں اجازت کی غرض سے حاضر ہوئے تومولانا سخت دل گرفتہ تھے انہوں نے اپنے شاگرد کو جو سند عطاء کی اس پر اپنے ہاتھ سے لکھا کہ یہ سند میں ایک ایسے پختون نوجوان کو دے رہاہوں کہ میں نے زندگی میں اتنا ذہین اوربہادر شخص نہیں دیکھا لیکن مجھے خدشہ ہے کہ جہالت میں مبتلا لوگ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے مولانا طاہر واپس آئے تو اپنے گاؤں پنج پیر سے کام کا آغازکیا یہ انتہائی کٹھن وقت تھا کیونکہ اس وقت سوائے اپنی اہلیہ کے کوئی بھی ان کے ساتھ نہ تھا سب نے ان کو تنہاچھوڑ دیا تھا گاؤں تک آمد وفت کاواحد ذریعہ تانگے ہوا کرتے تھے تانگہ بانوں نے بھی ان کابائیکاٹ کیاہواتھا جب مایوسی اور بڑھی تو انہوں نے گاؤ ں چھوڑنے اور اپنے استاد رئیس المفسرین مولانا حسین علی کے پا س جانے کا فیصلہ کیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا‘رات کو انہوں نے خوا ب دیکھا کہ وہ حضر ت ابراہیم ؑکی ٹانگیں دبارہے ہیں حضر ت ابراہیم ؑنے انہیں حکم دیاکہ اپنے انداز میں سورہ حم سجدہ بیان کروان کے بقول گھبراہٹ کے عالم میں سورہ کی تلاوت شروع کی تو جب چھٹی آیت (ترجمہ،اے پیغمبر کہہ دو کہ میں آپ ہی کی طرح ایک بندہ ہوں جب میرے اوپر وحی نازل ہوئی،یقینا اللہ ہی تمہارا واحد مددگاراور کارساز ہے سو اسی کی طرف توجہ اور اس سے استغفار مانگو اورہلاکت ہے مشرکوں کے لیے)کہتے ہیں کہ جیسے ہی آیت ختم کی حضرت ابراہیم ؑنے مجھے حکم دیاکہ اپنا درس یہیں پرجاری رکھوچنانچہ میں نے فیصلہ بدل لیا اور توحید اورردشرک جو اس آیت کریمہ کابنیادی ماخذہے دونوں ہی شیخ القرآن کی تحریک کامرکزی نکتہ رہے اگردیکھاجائے تو ان کی تحریک قرآن وسنت کی روشنی میں اصلاح معاشرہ کی تحریک تھی جس نے دین کے نام پر جاری رسومات کو ختم کیا‘ مولاناکو اپنے عہدکاابن تیمیہ بھی قراردیاجاتاہے کیونکہ ابن تیمیہ اور ان کی تحریک میں بڑی مشابہت ہے ان کی علمی عظمت کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ سعودی حکومت نے بڑے مناصب کی پیشکش کی اسی طرح جامعہ الازہر سے بھی پیشکشیں آئیں مگر ان کاہمیشہ یہ کہناتھاکہ میر ی ترجیح میر ی اپنی پختون قوم ہے ”مذہب کے نام پرنہ ووٹ نہ نوٹ“ ان کابنیادی فلسفہ تھا قوم کے بچوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی اپنے بچوں کو انہوں نے دینی تربیت کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ کیا یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے خاندان میں کرنل قادر،ان کی نواسی لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر اور انکے فرزند میجر عامر جیسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جہاں تک میجر عامر کاتعلق ہے اگرچہ انہوں نے عسکر ی امور اور انٹیلی جنس کے شعبہ میں اپنے کارناموں کی بدولت بڑا نام کمایا مگر اپنے والد اور ان کی تحریک سے جذباتی طورپر بھی خود کوپوری طرح سے منسلک رکھا‘پنج پیر ہو کہ نیساپور،پشاور میں ان کاڈیرہ ہویاپھراسلام آباد میں ان کی رہائش گا ہ،ہرجگہ بڑی بڑی محفلیں سجتی ہیں جن میں ہر شعبہ زندگی کے نامو ر لوگ شریک ہوتے ہیں‘راقم کو خود بھی ان محافل میں شرکت کے کافی مواقع ملے ہیں شاید ہی کوئی موقع ایسا آیا ہو کہ میجر عامر نے اپنی گفتگو کوقرآنی آیات سے مدلل اور مزین نہ کیاہویا اپنے عظیم والد کاذکر نہ کیاہو‘مولانا محمد طاہر  پہلے پختون مفسر ہیں جن پر ایک نہیں دوجامعات نے پی ایچ ڈیز کروائیں یہ بھی میجر عامر کی کاوشوں کانتیجہ ہے تاہم یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شیخ اپنے کردارکی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ تاریخ میں کوئی بھی بڑا آدمی جانشین یاکسی اور وجہ سے زندہ نہیں رہا 
بقول ابراہیم ذوق
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے یہی دوپشت چار پشت
دکھ کی بات یہ ہے کہ اس عظیم مفسر جوکہیں صدیوں میں پیداہوتاہے کی تفسیر ابھی تک غیر مطبوعہ حال میں پڑی ہوئی ہے کاش میجر عامر ہی اس طرف توجہ دے سکیں اوران کی تفسیر کو فوری طورپر زیور طباعت سے آراستہ کرکے ایک بڑا قرض اتارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔