موسم کے ہا تھ بھیگ کے سفّاک ہوگئے 

گزشتہ کل پشاور کی وادی میں بادل، خوب گھر کر آئے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ بادل ایسی گھنگھور گھٹاؤ ں میں بدل گئے کہ دن پر شام کا گماں ہونے لگا۔ مگر ابھی بادلوں کو برسنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی سے مرجھائے ہوئے ماحول نے آنکھیں کھول دی تھیں اور، گرمی سے بیزار چہروں کی کشیدگی بھی کم ہو نا شروع ہو گئی تھی۔ میرے پاس میرے جواں سال و جواں فکر دوست ذی شان فضل بیٹھے ہوئے تھے، اور ہم چھوٹی سکرین کے ڈرامہ کی پنگ پانگ کی ٹپہ کھائی ہوئی گیند ایک دوسرے کی طرف اچھالے جا رہے تھے۔ میں اسے سننا چاہ رہا تھا،نئے آدمی کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے بشرطیکہ اسے بولنے دیا جائے، ہم گزشتہ کل کے چھوٹی سکرین پر چلنے اور پھر دیکھنے والوں سے اعتبار حاصل کرنے والے ڈراموں کی بات کر رہے تھے۔ ان ڈراموں کے پیشکار اگر ان ڈراموں کا موازنہ آج کے ڈراموں سے نہ ہی کریں تو بہتر ہو گا کہ اب کے بہت کچھ تبدیل بھی ہے اور کئی حوالوں سے چھوٹی سکرین کے ڈرامہ کو نئے دور نے بہت مشکل بھی بنا دیاہے۔ جدید ٹیکنالو جی آ گئی ہے جن کی مدد سے ڈرامہ کی پیشکش کو عمدہ بنایا جایاسکتا ہے، لیکن ڈرامے کے پنڈتوں نے ایک اچھے ڈرامے کے لئے جن تین چیزوں کا اچھا ہونا لازمی قرار دسے رکھا ہے ان میں پہلے نمبر پر اچھا سکرپٹ ہے، اتفاق سے ان کے نزدیک دوسرے اور تیسرے نمبر پر بھی سکرپٹ ہی ہے۔ گویاسکرپٹ ایک سازگار پچ کی طرح ہے جس پر ایک اچھا پیشکار اپنی خدادا صلاحیت کے ساتھ خوب کھیل سکتا ہے، اور اسے شاہکار ڈرامہ بنا سکتا ہے، اور اچھاتخلیقی سکرپٹ وقت مانگتا ہے، جو فی زمانہ بمشکل میسر آ تا ہے، اس لئے بسا اوقات ڈرامہ کا سکرپٹ اردو کے اس روز مرہ کی مثال بن جاتا ہے کہ ”کاٹا اور لے دوڑی“ 
اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ آٹا کو کتنا ہی اچھا گوندھا گیا ہو، پیڑے بنانے سے پہلے اسے کتنا بھی وقت دیا گیا ہو اور روٹی کتنی ہی گول اور سڈول بنائی گئی ہو، اگر توے سے کچی اتار لی جائے تو ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے، اس لئے پیش کار کو اپنے فن کا ماہر ہو نا ضروری ہے یعنی اسے معلوم ہو کہ اسے اپنے سبجیکٹ اور سکرپٹ کے ساتھ کتنا رومنیس کر نا ہے، مان لیجئے کہ اب کے برق رفتار زمانے میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ کوئی پیشکار پہلے تو سکرپٹ رائٹر کے ساتھ بیٹھ کر سکرپٹ کو اپنے اندر اتار سکے، پھر کرداروں کے مزاج کو سمجھ کر اچھے فنکاروں کا انتخاب کر سکے، پھر فنکاروں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے سوالوں کے جواب دے سکے یا کئی کئی دن تک ریہرسلز کرے، اس لئے کہ یہ کرکٹ کے ٹیسٹ میچ کا زمانہ نہیں ہے اب ہم ون ڈے سے بھی گزر آئے اور بات 20 ٹوئنٹی تک جا پہنچی ہے، اور کرکٹ کے اس نئے فارمیٹ میں دیکھنے والوں کی دلچسپی گیم میں سنسنی خیزی اور ایکسائٹمنٹ سے تو بھر گئی ہے لیکن وہ ٹیسٹ میچ کی خوبصورتی اور کھلاڑیوں کی سٹائلش پر فارمنس جیسے اب خواب و خیال ہو گئی ہے، اب راتوں رات کرکٹ سٹار اور ہیرو بننا آسان ہو گیا مگر یہ شہرت بہت وقتی اور جلد بھلا دی جاتی ہے، اس کے برعکس کرکٹ کے ٹیسٹ میچز کے سٹار اور ہیرو ز کئی دہائیوں کے بعد بھی کرکٹ لوورز کے دلوں میں زندہ ہیں اور ریفرنس کے طور پر ان کا نام فوراً زبان پر آ جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ماضی کا ہرٹیسٹ کھیلنے والا لو گوں کو یاد رہ جائے، اس کے لئے بھی، شرط وہی ہے کہ جس نے بھی تسلسل کے ساتھ ریاضت کی اور پرفارمنس دی ہو۔ اس طرح اوائل میں کچھ اچھے تخلیقی پیش کاروں نے بہت عمدہ تخلیقی کام کیا ہوا ہے، لیکن ہر پیش کار پر یہ کلیہ منطبق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ کل بھی آج کی طرح ہرپیش کار کے پاس اپنے ڈرامہ کے سکرپٹ سے رومینس کرنے کے لئے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی دماغ،اور ایسے پیش کاروں کے بارے میں حیران کن کہانی کار مظہرالاسلام نے اپنی ایک کہانی میں کمال لائن لکھی ہے وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے بہت سے پروڈیوسرز کو ”کہانی کی موت“ کا منظر فلماتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو ہمارے ’گرو‘ نے کہی ہے
 عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
 دل کا کیا رنگ کروں خون ِ جگر ہونے تک 
اور یہ ”وہی تخلیقی صبر“ ہے جو کل بھی بہت سے پیش کاروں کے پاس نہیں جب اس سماج کے رہنے والوں کے پاس بہت وقت ہوا کرتا تھا، اور اب تو بنا بنایا بہانہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ مگر جن پروڈیوسرز کو اس تخلیقی صبر کا میٹھا پھل چکھنے کا موقع ملا ہے وہ آج کے ایک ایسے دور میں جب چھوٹی سکرین پر کئی کھڑکیاں کھل گئی ہیں اور ہر شام ان دریچوں میں ناٹک بھی رچایا جاتا ہے وہ اپنے سبجیکٹ اور سکرپٹ کے ساتھ اپنے حصے کا بھرپور رومینس کر رہے ہیں، ایسے کم کم لوگ کل بھی ڈرامہ اور فلم کے شعبے سے جڑے ہوئے تھے، جیسا کہ ایک معروف ڈائیریکڑ سے جب ایک جرنلسٹ نے پوچھا کہ سال بھر پہلے آپ نے جس فلم کے بنانے کا اعلان کیا تھا وہ کب بنے گی، ڈائریکڑ نے جواب دیا کہ وہ تو بن چکی ہے، جرنلسٹ نے حیرانی سے پو چھا،بن گئی تو ریلیز کب ہو گی، انہوں نے کہا وہ تو جب فلم کے فیتے پر منتقل ہو گی تب ریلیز ہوگی، فلم میرے ذہن میں بن چکی ہے اب ریکارڈنگ کی طرف جاؤں گا، ٹی وی کی بات کی جائے جب چھوٹی سکرین پر ایک ہی چینل کی حکمرانی تھی اور جو بھی ریکارڈ ہو کر آن ائیر جاتا لوگ اس کو قبولیت کی سند عطا کر دیتے، اب دیکھنے والے کے پاس بہت سے راستے کھلے ہوئے ہیں،اس لئے بسا اوقات کل کے مقبول اور اکلوتے چینل پر نشر ہونے والا کوئی کوئی پروگرام تو ”جنگل میں مور نا چا کس نے دیکھا“ کی مثال بن جاتا ہے، لیکن اب بھی اس چینل پر کمال کام کرنے والے پیشکار مو جود ہیں میں نے کہا نا کہ ”نئے آدمی کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے بشرطیکہ اسے بولنے دیا جائے،‘ ایک پشاور ٹی وی مرکز کو دیکھا جائے تو آج بھی نئے،تازہ دم اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والے پیش کار یہاں سے عمدہ کام کر رہے ہیں، ان عمدہ پیش کاروں میں سے ایک عمدہ پیش کارذی شان فضل بھی ہے جس سے گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اس جواں سال اور جواں پیش کار کا مطالعہ اور مشاہدہ کمال کا ہے اور پھر اس کے پاس بات سننے،سمجھنے اور اسے اپنی صلاحیت کے ساتھ آگے بڑھانے کے لئے وقت بھی ہے،جوش بھی اور کچھ ہٹ کے کرنے کے لئے رسک لینے کا حوصلہ بھی ہے۔ مجھے اس نوجوان سے فون پر بات کرتے ہوئے اور کسی بھی موضوع پر بحث کرنے میں ہمیشہ بہت لطف آ تا ہے، یوں بھی اس کی شعر و موسیقی سے دلچسپی نے ہمارے مشترکہ موضوعات پر بحث مباحثہ کو آسان بنا دیا ہے۔ سو ہم گزشتہ کل بھی گفتگو سے ڈرامہ کی گرہیں کھولتے رہے اور موسم سے بے خبر رہے یہ تو جب ابتسام بھیگا ہوا اندر آیا تو اس نے بتایا کہ باہر تو بہت زور کا چھنٹا پڑ ا بلکہ اب بھی بارش جاری ہے اور گلیاں سڑکیں نہریں بن گئی ہیں، تب تک عتیق الرحمن انجینئر بھی بارش کی کہانی کے ساتھ آ پہنچے ہم نے ریڈیو پاکستان جانا تھا، باہر نکلے بمشکل تین چار منٹ کی ڈرائیو پر واقع ریڈیو سٹیشن پہنچنے میں ہمیں کم و بیش دو ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔ کیونکہ سڑکوں پر رواں پانی اور رکے ہوئے ٹریفک کا ایک بپھرا ہوا سیلاب تھا اور بہت سی ڈراپ گاڑیاں پانی میں پھنسی ہوئی تھیں اور پھر کتنی ہی دیر ہم گاڑی کے ”متحرک جزیرہ“میں ریڈیو پاکستان پہنچنے کا محفوظ راستہ تلاش کرتے رہے۔۔ پروین شاکر نے کہا ہے۔
 بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
 موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفّاک ہوگئے