اِنسان نے اپنی لاعلمی کا اعتراف ہر دور میں کیا اور یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشروں میں صدیوں سے اِس مسلمہ اصول پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ”علم صرف حقیقت نہیں بلکہ علم ہی حقیقت ہے‘ جسے انسانی معاشرہ معلومات و تجربات سے اخذ یا حاصل کرتا ہے اور اِس حاصل شدہ مرکب کی جامعیت کے لئے جو اصول وضع کئے گئے ہیں اُن کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انسانی معاشروں میں تعمیر و ترقی ہونی چاہئے۔ علم کیا ہے؟ مصنفین (اساتذہ) کا نقطہ نظر ہے کہ یہ درحقیقت رجحانات‘ دلچسپیوں اور ان کے لئے دستیاب ذرائع کی بنیاد پر حاصل ہونے والا ”تاثر“ بنیادی جبکہ اِس ایک تاثر سے اُبھرنے والے تاثرات کا مجموعہ جامع ”علم“ ہے۔ علم اور ”تعمیر نو“ کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے خطبات موجود ہیں لیکن اگر اُن سبھی تصورات کو کسی ایک تصور کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے تو اُس کا عنوان ”علم فی نفس“ ہوگا۔ یہ موضوع وسیع ہے اور یہاں صرف اشارتاً ذکر کیا جا رہا ہے کہ آج کا انسان ہر شے کے بارے میں خود سے زیادہ آشنا ہے لیکن اِسے اپنے اندر جھانکنے کی فرصت نہیں کہ جہاں اربوں برس کا ارتقائی علم محفوظ ہے۔
بہرحال ’علم فی نفس‘ کے بارے میں لاتعداد نکتہ ہائے نظر موجود ہیں اور اِس ایک عنوان کو سمجھنے اور بیان کرنے کے لئے قرآن و احادیث مبارکہ کے تراجم و تفاسیر‘ تاریخ اُور فقہ کی کتابوں کے علاؤہ فتاویٰ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے تاکہ علم کی حقیقت (بنیاد) تک بنا بھٹکے پہنچا جا سکے۔ علم کسی ایک ہی بیان یا حقیقت کے متعدد پہلو اور اِن پہلوؤں کے مختلف نظریات ہوسکتے ہیں۔ ”علم“ آزادی چاہتا ہے۔ یہ آزادی اظہار کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ جدید دور میں جملہ ذرائع ابلاغ (بشمول الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا) اپنے مفادات کے لئے کسی خاص شے کو دوسروں سے بہتر (پرکشش) بنا کر پیش کرتا ہے۔ اِس طرزعمل کے باعث اختلافات کو فروغ ملتا ہے۔ علم رکھنے والے طبقات کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی کسی صورتحال میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ”علم“ کے ساتھ جڑے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کریں اور کسی معاشرے کو اختلافات سے بچائیں۔ علم کی شناخت یہ ہے کہ یہ اختلافات کم کرے گا۔
اصول یہ ہے کہ غیر جانبدار نتائج تک پہنچنے کے لئے ان کا ممکنہ حد تک معروضی تجزیہ کیا جائے۔ دوسروں کے خیالات کو زیادہ توجہ (ہمدردی) سے سُنا جائے۔ سماجیات سے متعلق علم کا جدید پہلو یہ ہے کہ یہ ایک نقطہ نظر کی تخلیق‘ تعمیر اور تعمیر نو کا حاصل (نتیجہ) ہوتا ہے جس میں سیاق و سباق‘ اوقات اور محرکات سے علم وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جبکہ اعلیٰ تعلیم کا تصور محدود نہیں رہا اور اِس میں انسانی سماج کے ارتقا‘ اِس کی تاریخ و ثقافت اور عقائد و نظریات کا مطالعہ بوساطت ’انٹرنیٹ‘ نسبتاً آسان ہوگیا ہے تو وقت ہے کہ نوجوان (مرد و خواتین کے) ذہنوں کو مطالعے (کتب بینی) اور علمی موضوعات پر بحث و مباحثے کی سہولت و ترغیب فراہم کی جائے۔ اس کے علاؤہ ”ادب (فنون لطیفہ)“ تک رسائی زیادہ وسیع اور اِن کے معروضی مطالعے کو ممکن بنایا جائے۔ جدید تحقیقی مضامین جیسا کہ بشریات‘ سماجیات‘ نفسیات اور آثار قدیمہ توجہ طلب ہیں جن کے ذریعے ثقافتوں کا مطالعہ ممکن ہے۔