موبائل، واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور مواصلات کے دیگر جدید ذرائع نے خط وکتابت کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔1960 کے عشرے میں کسی دوسرے شہر اور دیار غیر سے عزیز، رشتہ دار کا جوابی لفافہ سمیت خط آنا اور اس کا جواب لکھنا اہم سماجی تقریب ہوا کرتا تھا۔خطوط نویسی کی ہمارے ادب اور ثقافت پر بھی گہری چھاپ دکھائی دیتی تھی۔خط کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کو متعدد ناموں سے پکارا جاتا ہے کچھ لوگ اسے سندیسہ کہتے ہیں کوئی چٹھی پکارتا ہے ہندی میں اسے پتر کہا جاتا ہے،اسے مراسلہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ہمارے شاعروں نے بھی اس کا دل کھول کر ذکر کیا۔ مرزا غالب کہتے ہیں کہ" قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں۔ میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں "پرانے زمانے میں عاشقوں کا ٹولہ خط محبوب تک پہنچانے کے لئے کبوتروں کی خدمات حاصل کرتے تھے اور منتیں کرتے تھے کہ واسطہ رب دا تو جاویں رے کبوترا۔پھر شاید کبوتروں نے بھی ممکنہ سنگین نتائج کے خدشے سے آلہ کار نہ بننے کا فیصلہ کیا۔
ایک مشہور فلمی گانے کے بول ہیں کہ خط پڑھ کے تیرا، آدھی ملاقات ہوگئی۔ بن بادلوں کے کیسی یہ برسات ہو گئی۔ ایک اورمسرور کن گیت بھی خط کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے" یہ میرا پریم پتر پڑھ کر، کہ تم ناراض نہ ہونا، کہ تم میری زندگی ہو"ایک فلمی سین میں پردیسی کے خط کا جذباتی انداز میں ذکر کیا گیا ہے کہ" سندیسے آتے ہیں، تو پوچھے جاتے ہیں کہ گھر کب آو گے، کہ تم بن یہ گھر سونا سونا ہے"ایک سین میں ملکہ ترنم کی زبانی ہیروئن نے یہ آرزو کی کہ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے، حال میرے دل کا تمام لکھ دے۔خط کا ذکر ہر زبان کے ادب میں ملتا ہے۔کہوار زبان کے ایک شاعر کا کہنا ہے کہ" تہ کاغذ مہ سوم توری، اوا حکیم ہوتم ہنون"یعنی تمہارا خط ملتے ہی میں حکیم بن گیا ہوں۔ہمارے ادب میں غالب کے خطوط کی بڑی دھوم ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات اور ایجادات نے انسان کی سہولتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے لیکن پرانے ذرائع کی اہمیت بدستور موجود ہے ایک صاحب کا دعوی ہے ای میل کی تیز رفتاری واقعی حیرت انگیز ہے لیکن خبر پھیلانے میں ای میل آج بھی کچھ ذرائع کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بالکل اسی طرح خطوط کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔دیکھا جائے تو خط ملنے کی جو خوشی ہوتی تھی اور جس طرح ایک سسپنس ہوتا تھا کہ لفافہ کھول کر اس سے خط برآمد ہو اورپھر یہ بھی ایک بات ہے کہ ہر فرد کا رسم خط الگ ہوتا ہے اسلئے خط کی وصولی سے ایک طرح سے ذاتی ملاقات کا احساس ہوتا تھا، ای میل اور واٹس ایپ میسجز میں وہ بات کہاں۔