دنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ’کے ٹو (8611 میٹر)‘ کے علاوہ پاکستان میں کئی معروف چوٹیاں ہیں لیکن کوہ پیمائی کا کھیل خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔ پاکستان کے تین پہاڑی سلسلوں قراقرم‘ ہمالیہ اور ہندوکش کی چوٹیوں کو سر کرنے کیلئے دنیا بھر سے کوہ پیما آتے ہیں‘ جنہیں دیکھتے ہوئے پاکستان میں انفرادی طور پر کوہ پیمائی فروغ پا رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ’کے ٹو‘ قراقرم پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جبکہ ہمالیہ میں ناگا پربت دنیا کی 9 ویں بلند چوٹی (8126میٹر) اور ہندوکش میں ترچ میر دنیا کی 33 ویں بلند ترین چوٹی ہے جس کی اونچائی 7708 میٹر ہے۔مجموعی طور پر پاکستان میں 108 پہاڑی چوٹیاں 7 ہزار میٹر سے بلند ہیں جبکہ 4555 چوٹیاں 6 ہزار میٹر سے بلند ہیں اور 5 ہزار میٹر سے بلند پہاڑی چوٹیوں کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔ دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں پاکستان میں ہیں جن کی اکثریت قراقرم پہاڑی سلسلے (گلگت بلتستان) میں ہے۔ پاکستان کی پہلی پانچ بلند چوٹیوں میں ’کے ٹو (8611میٹر)‘ نانگا پربت (8126 میٹر)‘ گاشیربرم ون (8080میٹر)‘ براڈ پیک (8051 میٹر) اور گاشیربرم ٹو (8035میٹر) کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے بلند ہے اور عالمی درجہ بندی کے مطابق یہ بالترتیب دوسرے‘ نویں‘ گیارہویں‘ بارہویں اور تیرہویں نمبر پر ہیں اور ’کے ٹو‘ سر کرنے والے پاکستان کے پہلے کوہ پیما اشرف امان ہیں‘ جنہوں نے 1977ء میں یہ چوٹی سر کی تھی اور اِس کے بعد سے مقامی طور پر کوہ پیمائی کو فروغ ملا ہے جو قبل ازیں آمدنی کے لحاظ سے ایک خاص طبقے تک محدود تھی۔
حال ہی میں پاکستانی کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک ’نئے باب‘ کا اضافہ ہوا ہے جب ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی نامی دو خواتین نے ’کے ٹو‘ کو سر کیا ہے اور ’کے ٹو‘ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خواتین ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے تاہم اِس خبر کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ میں اِس کا زیادہ تذکرہ سننے یا دیکھنے میں آیا ہے، ایسی بہت سی ’اچھی (مثبت) خبریں‘ جو کہ پاکستان کی ساکھ میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں لیکن دیگر موضوعات تلے دب جاتی ہیں! اس سے قبل ثمینہ خیال بیگ المعروف صائمہ بیگ (سکنہ شمشال‘ ہنزہ‘ گلگت بلتستان‘ تاریخ پیدائش 19 ستمبر 1990ء) نے 21 سال کی عمر میں سات براعظموں میں ساتویں بلند پہاڑی چوٹی ’ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور وہ یہ اعزاز اپنے اور ملک کے نام کرنے والی پہلی خاتون اور پہلی مسلمان خاتون بھی ہیں جبکہ اُنہوں نے 23 سال کی عمر میں 7 بڑی چوٹیاں سر بشمول ایورسٹ سر کر لی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کوہ پیما ’نئی بلندیوں‘ کو چھو رہی ہیں اور اب اُن کی منزل ستاروں سے آگے کے جہاں دکھائی دے رہے ہیں! بائیس جولائی کے روز‘ جب 2 پاکستانی خواتین نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ سر کی تو اِس خبر (کارنامے) کے چرچے پاکستان سے زیادہ بیرون ملک ہوئے۔
ثمینہ کا یہ غیر معمولی کارنامہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بننے کے تقریباً نو سال بعد ہوا ہے۔ اس تازہ ترین کامیابی کے ساتھ ہنزہ کے ایک دور افتادہ گاؤں شمشال سے تعلق رکھنے والی اکتیس سالہ ثمینہ نے تجربہ کار اور باصلاحیت کوہ پیما کے طور پر اپنی ساکھ کو مزید مستحکم کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خواتین اگر چاہیں تو وہ بھی کھیل کے اِس شعبے میں قدم رکھ سکتی ہیں۔ کوہ پیمائی بنیادی طور پر مضبوط اعصاب‘ ہمت اور جنون کا مجموعہ ہے‘ جس کے لئے تربیت اور ریاستی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما جنہوں نے سات براعظموں میں سات چوٹیاں فتح کی ہیں کسی بھی طرح معمولی بات نہیں بالخصوص جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کارنامہ ایک خاتون نے سرانجام دیا ہے۔ ثمینہ اور نائلہ کوہ پیمائی کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے والی واحد خواتین نہیں۔ ایران‘ بنگلہ دیش، سعودی عرب اور عمان کی کوہ پیما خواتین اپنے اپنے ممالک کے لئے یہ اعزازات پہلے ہی حاصل کر چکی ہیں اور اُنہوں نے بھی ’کے ٹو‘ کی چوٹی کو سر کیا ہے جو اپنی ڈھلوانوں اور تیز ہواؤں کی وجہ سے ”وحشی پہاڑ“ کہلاتا ہے۔ جہاں ثمینہ کو پاکستان کی کوہ پیمائی کی ملکہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘ وہیں نائلہ کے حیران کن کارنامے کو بھی سراہا جانا چاہئے۔
ثمینہ کی چڑھائی مکمل کرنے کے چند گھنٹے بعد ہی نائلہ نے بھی ’کے ٹو‘ کی چوٹی پر قدم رکھا۔ دبئی میں مقیم نائلہ شادی شدہ خاتون‘ ایک نوجوان ماں ہیں اور انہوں نے گزشتہ سال پاکستان میں ’گاشربرم ٹو‘ سر کی تھی اور یہ کارنامہ انجام دینے والی اپنے ملک کی پہلی خاتون بن گئیں۔ ثمینہ اور نائلہ نے یقینی طور پر پاکستان میں کوہ پیمائی کی بڑھتی ہوئی دلچسپی میں اضافہ کیا ہے۔ ’کے ٹو‘ کی چوٹی کو بدنام موسم کی وجہ سے مشہور ایورسٹ کے مقابلے فتح کرنا زیادہ مشکل سمجھا جاتا ہے۔ 1954ء سے اب تک اسے صرف 425 کوہ پیما سر (فتح) کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ جن میں بیس خواتین شامل ہیں۔ اس کے برعکس 1953ء سے اب تک چھ ہزار سے زائد کوہ پیما ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں صابر نذیر اور ایم علی سدپارہ جیسے عالمی معیار کے کوہ پیما پیدا کئے۔ حالیہ دنوں میں سرباز خان اور شیروز کاشف جیسے کوہ پیما بھی سرخیوں میں رہے اور مستقبل قریب میں کوہ پیماؤں کی یہ فہرست بڑھنے کا امکان ہے۔ ’کے ٹو‘ سر کرنے والے میں ایک سو یا اس سے زیادہ کوہ پیما پاکستانی ہیں۔ ثمینہ اور نائلہ کے علاؤہ ٹاپ پر پہنچنے والے دیگر پاکستانیوں میں سرباز خان‘ فدا علی‘ عید‘ سہیل سخی‘ بلبل کریم‘ اے بیگ‘ رضوان داد‘ وقار علی‘ شاہ دولت‘ شاہ شمشالی‘ واجد اللہ نگری‘ اکبر حسین سدپارہ اور دیگر شامل ہیں۔ یہ تعداد پاکستان میں کوہ پیمائی میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے لیکن اِس کی تربیت و رہنمائی کے لئے ادارے موجود نہیں۔ قومی فیصلہ سازوں کو ’کوہ پیمائی‘ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور کوہ پیماؤں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر کے اس انتہائی کھیل کی سرپرستی کرنی چاہئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے صلاحیتوں اور ارادوں کا خون ہو رہا ہے!