مون سون بارشوں کی حالیہ لہر نے خیبر پختونخواکے مختلف علاقوں میں تباہی مچائی ہے صوبے کا دور افتادہ اور پسماندہ ضلع چترال سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔گلیشئیر پھٹنے اور طوفانی بارش سے اپر چترال کے ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی، چرون، جنالی کوچ، تریچ، لاسپور اور وادی یارخون میں درجنوں رابطہ سڑکیں، پل، پشتے، رہائشی مکانات، دکانیں، سکول، بجلی گھر، آبپاشی کی نہریں، پائپ لائنیں، تیار فصلیں اور پھلدار درختوں کے باغات تباہ ہو گئے۔ لوئر چترال کے علاقوں دنیں، شالی، کریم آباد گرم چشمہ، بکر آباد، بمبوریت اور عشریت میں بھی سیلاب سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔لواری ٹنل کے قریب براڈم کے مقام پر سیلاب آنے سے چترال ملک کے دیگر حصوں سے کٹ گیا ہے جبکہ تحصیل گرم چشمہ کی سڑک شالی اور اپر چترال کا زمینی رابطہ ریشن کے مقام پر پھر بند ہو چکا ہے۔دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے ریشن میں دو درجن رہائشی مکانات، فصلوں سمیت سینکڑوں ایکڑ زرخیز اراضی اور باغات دریا برد ہوچکے ہیں شادیر کے مقام پر متاثرین نے اپنے مکانات گرا کر، پھلدار درخت اور فصلیں کٹوا کر عارضی طور پر کچی سڑک بنوا کر راستہ کھول دیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ، این ایچ اے حکام، اور سیاسی رہنماؤں نے متاثرین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک ہفتے کے اندر تمام متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے گا اور دریا کے کنارے پشتے تعمیر کرنے کا کام شروع کیا جائے گا مگر حسب سابق یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہوسکا۔وزیر اعلی نے سیلاب اور بارشوں کے متاثرین کو فوری امداد فراہم کرنے، رابطہ سڑکیں کھولنے اور مزید بارشوں کے پیش نظر انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔تاہم نچلی سطح پر سرکاری اداروں کے درمیان ذمہ داریوں کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور متاثرین بے یارومددگار پڑے رہتے ہیں۔زمینی راستے منقطع ہونے کی وجہ سے سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں اشیائے خوردونوش اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور موسمی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ ذمہ دار محکموں کو صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مون سون ایک موسمی چکر ہے جس کا سامنا ہر سال ہوتا ہے اور اس دوران بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا تدارک اس صورت میں ہی ممکن ہے جب اس کیلئے پہلے سے تیاری کی جائے۔ اچانک پیش آنے والے حادثے سے نقصان ہو تو سمجھ میں آنے والی بات ہے تاہم ایسے واقعات اور موسمی حالات جن کا پہلے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس کیلئے تیاری نہ کرنا اور حفاظتی انتظامات کا نہ ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ سچ ہے تو کہ قدرتی آفات سے مکمل بچاؤ اگر ممکن نہیں تو اس کے نتیجے میں ہونے والے مالی اور جانی نقصانات سے بچاؤ تو بہر حال ممکن ہے، اس کے ساتھ ساتھ بحالی کے کام میں تیزی اور اس کو مقررہ مدت میں پورا کرنا بھی ضروری ہے خاص کر سڑکوں کی فوری بحالی اس لئے بھی ضروری ہے کہ ا س سے قدرتی آفات کی صورت میں امدادی کاموں میں آسانی رہتی ہے۔