موسم کی شدت پسندی 

موسم کی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کس طرف جارہاہے کبھی تو اس قدر حبس اورگرمی ہوجاتی ہے کہ سانس لینا دوبھر ہوجاتاہے اور کبھی اس قدر بارش برستی ہے کہ زندگی پناہ ڈھونڈنے لگ جاتی ہے وطن عزیز میں تو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رواں برس ماہ مارچ میں ہی لوگوں کے پسینے چھوٹنے لگ گئے تھے تاہم پہلی بار اس وقت یورپی ممالک میں گرمی نے تباہی مچائی ہوئی ہے برطانیہ میں تو تاریخ کی سب سے خطرناک گرمی نے شہریوں کے اوسان خطا کردیئے ہیں ان ممالک کے لوگوں کاایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عام طورپرٹھنڈ رہنے کی بدولت ان کی تعمیرات میں بھی اس امر کااہتما م کیاجاتاہے کہ زیادہ سے زیادہ گرمائش کے حصول کو ممکن بنایاجاسکے اس لیے جب اچانک گرمی کی لہر آتی ہے توپھر ان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں اس وقت یورپ میں جاری شدید گرمی کی لہر سے کئی مقامات پر درجہ حرارت چالیس ڈگری سنٹی گریڈ کے قریب ریکارڈ کیا جاتارہا۔ فرانس میں گرمی کی لہر جنگل کی آگ کو ہوا دیتی رہی  جبکہ سپین میں کئی افراد آگ لگنے سے ہلاک ہوگئے  برطانیہ نے پہلی بار انتہائی شدید گرمی کا انتباہ جاری کیا گیا۔ خبروں کے مطابق سپین کے ارد گرد جنگلات میں لگنے والی 30 سے زیادہ مقامات پر آگ نے ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا  اور 220 مربع کلومیٹر (85 مربع میل) جنگل اور جھاڑیوں کو جھلسا دیا۔ گرمی کی لہر اور موسمیاتی تبدیلی سے منسلک خشک سالی نے جنگل کی آگ سے لڑنا مشکل بنا دیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی موسم کو مزید شدید اور جنگل کی آگ کو بار بار ہونے والا واقعہ اور تباہ کن بناتی رہے گی اسی طرح جرمنی، فرانس، سپین اور دیگر مغربی یورپی ممالک میں گرمی کی شدید لہر جاری رہی  ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں شدید گرمی کی محرک ہیں۔ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ غیر معمولی اور وقت سے پہلے گرمی کی لہر اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ آئندہ برسوں میں صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔ مغربی یورپی ممالک میں جون کے مہینے میں جتنی گرمی دیکھی گئی، ماضی میں یہ موسم جولائی کے اواخر اور اگست کے اوائل میں دیکھا جاتا تھا۔ سائنس دان پہلے ہی خبردار کرتے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدید لہر عمومی وقت سے پہلے ان علاقوں کو لپیٹ میں لے گی سپین میں گرمی کی پہلی لہر مئی میں سامنے آئی تھی اور اوسط درجہ حرارت سے 15 ڈگری زیادہ گرمی ریکارڈ کی گئی تھی۔سپین میں گرمی کی موجودہ  لہر تین ہفتوں سے جاری ہے اور اب تک جنگلوں میں آگ لگنے کے باعث قریب 23 ہزار ایکڑ علاقہ جل چکا ہے  فرانس کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے زیادہ رہا تھا۔اس معاملے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس میں گرمی کی یہ لہر  1947 کے بعد پہلی مرتبہ جولائی یا اگست کی بجائے جون میں ریکارڈ کی گئی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرہ زمین پر انسانوں کی سرگرمیاں اسی رفتار سے زہریلی گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی رہیں اور اس حوالے سے درکار اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا بھر میں صورت حال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے وطن عزیز بھی اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے چند دن قبل تک خیبرپختونخوا کے میدانی علاقوں میں تو گویا آگ برس رہی تھی ان حالات میں بارشوں کانیا سلسلہ شروع ہوا جو  28 جولائی تک جاری رہنے کا امکان ہے پہلے تو خوب گرمی پڑتی ہے اورپھر جب بارشیں شروع ہوتی ہیں تو سیلابی ریلے تباہی مچانے لگتے ہیں گویا موسم  شدت پسند ہوتاجارہاہے  موسمیاتی تغیرکااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ سات عشروں کے دوران پہلی بار مارچ کامہینہ اس قدر گرم گزرا کہ جون جولائی کی گرمی یاد آگئی تھی اوردوسری طرف اکیس جون کو صوبہ کے بالائی پہاڑی علاقوں میں برفباری ہوئی یہ صورت حال یقینا تشویشناک ہے اور اس کی ذمہ داری دنیا کے ان بڑے صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے جو زہریلی گیسوں کے اخراج میں اس وقت سب سے آگے ہیں جن میں امریکہ سرفہرست ہے چند روز قبل میڈ یا کے ذریعہ ایک اوررپورٹ سامنے لائی گئی جس میں یہ ہولناک ا نکشاف کیاگیاہے کہ امریکہ کی جانب سے خارج کی جانے والی زہریلی گیسوں سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے مختلف ممالک کو 19 سو ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی جس میں 1990 کے بعد سے مختلف ممالک کی جانب سے خارج کی جانے والی زہریلی گیسوں کے دنیا بھر پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔تحقیق کے مطابق زمین کا درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بننے والی گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج امریکہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ان گیسوں کے اثرات سے زیادہ تر غریب ممالک متاثر ہوتے ہیں جہاں ہیٹ ویوز، زراعت اور دیگر مسائل کے باعث عالمی معیشت کو 1990 سے اب تک 19 سو ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوا۔امریکہ کے بعد چین زہریلی گیسوں کے اخراج کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد روس، بھارت اور برازیل بالترتیب تیسرے، چوتھے اور 5 ویں نمبر پر ہیں۔ان پانچوں ممالک کے باعث 1990 سے اب تک دنیا بھر میں مجموعی طور پر 6 ہزار ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے اسی صورت حال پر  اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل نے بجا طورپر عالمی برادری کو خبردار کیاکہ یا تو مشترکہ کوششوں کے ذریعہ موسمیاتی تغیر کی اس لہر کو کنٹرول کرناہوگا بصورت دیگر اجتماعی خودکشی کے لئے تیاررہناہوگا اس صورت حال میں پاکستان جیسے پسماندہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں گرمی سے تو مشکلات بڑھتی ہی ہیں موسلا دھار بارشیں بھی اس دنوں خاص طورپرپہاڑ ی علاقوں میں سیلابی ریلو ں کاباعث بن کر تباہی کاسبب بن رہی ہیں پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعا ت رونما ہورہے ہیں دریاؤں اورندی نالوں طغیانی کی کتنی ہی ویڈیوزاس وقت سوشل میڈیا پرموجود ہیں حالانکہ اگر پالیسی ساز تھوڑی سی بھی سنجیدگی کامظاہرہ کرتے تو بارشوں کایہی پانی تباہی سے کہیں زیادہ خوشحالی و آبادی کا باعث بن سکتاتھا اسی پانی کو ذخیرہ کرکے ملک میں آبپاشی کے لیے استعمال میں لایا جاسکتاتھا مگر اب ایسانہیں اور ایک اندازے کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال 21ارب ڈالر مالیت کاپانی سمندر کی نذر ہوجاتاہے ارسا کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف تیس دن کی ہے دنیا بھر میں دستیاب پانی کا چالیس فیصد تک ذخیرہ کیاجاتاہے اس مقصد کے لئے چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیر کیے جاتے  ہیں مگرہمارے ہاں منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث دستیاب پانی کا صرف دس فیصد ہی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔