پاکستان میں نظام ِتعلیم کی بہتری سے متعلق جاری سدا بہار بحث و مباحثے میں کئی بہترین دلائل کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نظام تعلیم کو جامع اور بہتر بنانے سے متعلق ماہرین کے خیالات بحث کو ایسی نئی بلندیوں (اعلیٰ نظریاتی سطح) پر لے جاتے ہیں جہاں تعلیم عامہ کے حوالے سے مسائل واضح ہو جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسائل کا حل نہیں کیا جاتا ہر سال درجنوں ایسے سرکاری سکولوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن میں سائنسی تجربہ گاہیں (لیبارٹریز) نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف سرکاری تعلیمی غیرمعیاری ہے تو دوسری طرف غیرضروری طور پر نجی تعلیم غیرضروری طور پر مہنگی ہے۔تعلیم اور قومی ترقی کا عنوان خاصا فکر انگیز اور توجہ طلب ہے۔ مابعد نوآبادیاتی معاشروں کا موازنہ غیر ترقی یافتہ روایتی معاشروں سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ”جدید تعلیم“ داخلی تبدیلی کا مظہر نہیں بلکہ یہ ایک بیرونی چیز ہے‘ جو کہیں اور پروان چڑھی ہے اور اسے مختلف معاشرے میں پیوست (فکس) کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف یہ داخلی معاملہ ہے۔ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس ملک یا معاشرے نے کس طرح قدر معاشی ترقی کی ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اُس ترقی کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے اور یہ ترقی مرحلہ وار ہوئی ہے۔ ترقی کا پودا لگانے کے لئے کسی معاشرے کے پاس مطلوبہ جانکاری ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر وسطی امریکہ کے کسی ملک میں کمپیوٹر چپ بنانے کا کارخانہ لگایا گیا ہے اور اِس کا قطعی (ہرگز) یہ مطلب نہیں کہ اُس ملک میں کمپیوٹرز یا کمپیوٹرز چپ ڈیزائن اور پیداوار کرنے کی صلاحیت بھی آ گئی ہے۔ جواب طلب بنیادی سوال یہ ہے کہ ”کیا تعلیم خود ترقی کی طرف لے جائے گی یا یہ ترقی تعلیم کا تقاضا کرے گی؟ ترقی بنا تعلیم ممکن نہیں اور یہ اپنے آپ میں ایک ”متحرک مطالبہ“ ہے یعنی جیسے جیسے ترقی ہوتی ہے‘ علوم کی طلب بڑھتی ہے اور تعلیم اپنی جڑیں مختلف شعبوں میں پھیلاتی چلی جاتی ہے۔ اگر سوال یہ ہو کہ ’پاکستان میں تعلیم سیاسی مسئلہ کیوں نہیں ہے؟‘ تو اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں تعلیمی اصلاحات کا ذکر کرنے کو کافی سمجھتی ہیں اور شاید عوام کی بڑی تعداد کو اِس پر اطمینان بھی ہے لیکن ماہرین کی اکثریت قائل نہیں اور سمجھتی ہے کہ شعبہئ تعلیم میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل نہ ہونے کی وجہ ’ترجیحات‘ نہ ہونا ہے۔تازہ ترین پیشرفت (بائیس جولائی دوہزاربائیس) یہ سامنے آئی ہے کہ قریب تین سال قبل یکساں نصاب تعلیم (سنگل نیشنل کریکولم SNC) کے نام سے ملک کے 3 صوبوں ماسوائے سندھ میں جو اصلاحات متعارف کروائی گئی تھیں اُن کا نام تبدیل کرکے ”نیشنل کریکولم آف پاکستان (NCP)“ رکھ دیا گیا ہے۔ جب SNC متعارف کروایا گیا تھا تو اُس وقت ماہرین تعلیم کی ایک تعداد نے اِسے بنا سوچا سمجھا اقدام قرار دیا تھا لیکن ایسی کسی بھی ماہرانہ رائے پر کان نہیں دھرا گیا‘ جس کا نتیجہ قیمتی وقت اور مالی وسائل ضائع کرنے کی صورت ظاہر ہوا ہے اور یکساں نصاب تعلیم باوجود کوشش بھی لاگو نہیں کیا جا سکا بالکل اُسی طرح جیسا کہ حکومت نے بذریعہ قانون سازی سکول بیگ کا وزن عالمی پیمانے کے مطابق مقرر کرنے کی کوشش کی لیکن اِس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو جہاں سکول بیگ کا وزن مقرر کرنے میں ناکامی کا سامنا ہو‘ وہاں تعلیمی اصلاحات جیسے وسیع تصور کو کس طرح ممکنہ طور پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ماضی کے فیصلہ سازوں کی طرح ایک مرتبہ پھر غلطی دہرائی جا رہی ہے کہ ایک حکمت عملی کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر وزارت ِتعلیم نے تربیتی ورکشاپس اور قومی نصابی ورکشاپس شروع کر دی ہیں اور اِس مرتبہ NCP کو فروغ دیا جا رہا ہے جو کہ نصاب ِتعلیم کے جملہ پہلوؤں بشمول امتحانات‘ معیارات‘ نصابی کتب اور تربیت کا احاطہ کرنے والی ’جامع مشق‘ ہے لیکن اِس پوری تگ و دو میں ایک نہایت ہی بنیادی اور بظاہر عمومی و معمولی حقیقت فراموش کر دی گئی ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سے وفاقی حکومت ’قومی نصاب ِتعلیم‘ نہیں بنا سکتی کیونکہ نصاب ِتعلیم بنانا وفاق کی نہیں بلکہ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ نصاب ِتعلیم اور امتحانی اصلاحات کے سلسلے میں ماضی کی تمام مشقوں سے قابل رشک نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ملک میں پہلے سے ہی ’نیشنل ایجوکیشن اسسمنٹ سسٹم‘ اور ’صوبائی ایجوکیشن اسسمنٹ سیل‘ موجود ہیں۔ پہلے اقدام کے طور پر یہ دیکھنا چاہئے کہ ہر دور حکومت میں (اب تک) متعارف کی جانے والی تعلیمی اصلاحات کے خاطرخواہ نتائج برآمد کیوں نہیں ہوئے؟ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-A کہتا ہے کہ ہر بچے کو بنیادی وثانوی تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر اِس ایک آئینی نکتے (ذمہ داری) کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچا جائے تو تعلیم قومی و صوبائی ترجیحات میں سرفہرست ہو سکتی ہے۔تعلیمی نصاب اور امتحانی اصلاحات شروع کرنے کی بجائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں بچے تعلیمی اداروں (سکولوں) سے باہر ہیں اور ایسی صورت میں نصاب ِتعلیم میں ’نت نئی اصلاحات‘ مسئلے کا حل ثابت نہیں ہو سکتیں۔