خیبرپختونخوا کی سالانہ ترقیاتی حکمت ِعملی میں دستاویزات کے محافظ اور سرکاری کتب خانوں کے منتظم ’محکمہئ آرکائیوز و لائبریرز‘ کی توسیع کے گرانقدر منصوبے کے تحت جاری مالی سے مرحلہ وار 12 اضلاع میں 10 کروڑ روپے کی لاگت سے مزید کتب خانے قائم کئے جائیں گے۔ سوچ یہ ہے کہ مستقبل میں ضلعی سطح پر کم سے کم ایک ایک لائبریری ہونی چاہئے اور دوسرا حال ہی میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع میں بھی ایک ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ فی الوقت خیبرپختونخوا کے 18 اضلاع میں سرکاری کتب خانے موجود ہیں جن میں رحمان بابا لائبریری پشاور اور غازی تحصیل لائبریری ہری پور عمدہ و کامیاب مثالیں ہیں۔ جن بارہ اضلاع میں نئی سرکاری لائبریریز کا قیام عمل میں آئے گا اُن میں بالائی چترال‘ بٹ گرام‘ ہنگو‘ کرک‘ کوئی پلاسی‘ بالائی و زریریں کوہستان‘ مالاکنڈ‘ شانگلہ‘ ٹانک‘ تورغر اور بالائی دیر کے اضلاع شامل ہیں۔ مذکورہ توسیعی منصوبے میں پشاور بھی شامل ہے جس کے لئے تین نئی لائبریریوں کی منظوری دی گئی ہے جو حیات آباد‘ ریگی اور پی کے 77 کی حدود میں قائم کی جائیں گی جبکہ باجوڑ‘ مہمند‘ اورکزئی‘ جنوبی و شمالی وزیرستان اور کرم کے قبائلی اضلاع میں لائبریریوں کے قیام پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اِس مقصد کے لئے لنڈی کوتل اور پاڑہ چنار میں اراضی بھی حاصل کر لی گئی ہے۔ پاڑہ چنار کی اراضی بصورت عطیہ حاصل کی گئی ہے۔
اِس ترقیاتی حکمت عملی کی تکمیل سے خیبرپختونخوا کا کوئی بھی ضلع ایسا نہیں رہے گا جہاں لائبریری نہ ہو البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کتب خانوں سے رجوع کرنے والوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے یا کمی آ رہی ہے؟ اور اگر کمی آ رہی ہے تو اِس کی منجملہ وجوہات کیا ہیں اور وہ کونسے پہلو ہیں جنہیں دانستہ یا غیردانستہ طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے اور جو کتاب اور قاری کے درمیان ٹوٹے یا کمزور ہوئے تعلق کی مضبوطی کی راہ میں رکاوٹ کی صورت حائل ہے؟یادش بخیر خیبرپختونخوا میں پہلی سرکاری لائبریری ’سنٹرل ریکارڈ آفس‘ کے نام سے قائم ہوئی جو آج ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔ اِس لائبریری کا قیام جولائی 1947ء میں ’پشاور عجائب گھر‘ کے ایک حصے میں کیا گیا۔ تب موجودہ پشاور عجائب گھر کی عمارت کا نام ’ویکٹوریا میموریل ہال‘ ہوا کرتا تھا جہاں سرکاری دستاویزات کے ساتھ علاقائی تاریخ و ثقافت پر تحقیقی دستاویزات کو محفوظ رکھا جاتا تھا۔ پشاور عجائب گھر میں قائم کیا گیا یہ دستاویزی مرکز بعدازاں (اُنیس سو بانوے) میں عجائب گھر سے ملحقہ الگ عمارت تعمیر کر کے وہاں منتقل کر دیا گیا۔ مذکورہ لائبریری میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد کتب ذخیرہ ہیں اور یہ کتب خانہ ہفتے کے سات دن بشمول ہفتہ وار تعطیلات بھی کھلا رہتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں کتاب اور کتب خانے کے تصورات تبدیل ہو چکے ہیں۔ ممکن ہو گیا ہے کہ اب ایک ہی کتاب بیک وقت کئی افراد کے نام جاری کی جائے اور اِس بات کا اندیشہ بھی نہ رہے کہ کوئی ایک قاری کتاب کو نقصان پہنچائے گا یا اِسے مقررہ وقت پر واپس نہیں کرے گا یا دیگر قارئین کو کتاب ملنے کا انتظار کرنا پڑے گا‘ الیکٹرانک کتب (e-books) وسائل و ممکنات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ پہلے ہی مرکزی سطح پر کتب خانہ قائم کئے ہوئے ہے جہاں آن لائن لاکھوں کتابوں تک رسائی صرف متعلقہ تعلیمی اداروں کے طلبہ کو فراہم کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کی سرکاری لائبریریز کی رکنیت رکھنے والوں کو بھی اگر ’ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آن لائن لائبریری تک رسائی دیدی جائے تو یہ کم خرچ بالانشین سہولت ہوگی۔ دوسری اہم بات سرکاری لائبریریز کی رکنیت حاصل کرنے کا طریقہئ کار ہے جسے آسان و آن لائن بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ اُمید اپنی جگہ اہم (قابل ذکر) ہے کہ رواں مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے اختتام تک خیبرپختونخوا کے ہر میں کم سے کم ایک سرکاری لائبریری ہوگی لیکن اگر اِس سے قبل ’لائبریری رکنیت سازی مہم‘ چلائی جائے اور ’آن لائن لائبریری‘ کے وسائل مرتب کئے جائیں تو موبائل فون‘ ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ و ڈیسک ٹاپ کمپیوٹروں سے لیس طلبہ کے لئے تحقیق و مطالعہ زیادہ آسان ہو جائے گا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں لائبریری کی عمارتیں بنانے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے اگر ’آن لائن لائبریری‘ اور ’بذریعہ ڈاک لائبریری‘ کے تصورات کو ترقی دی جائے اور اِس شعبے میں مصنوعی ذہانت کو خدمت کا موقع دیا جائے تو کسی ایک موضوع پر تحقیق کرنے والے طلبہ کو سینکڑوں ہزاروں حوالہ جاتی کتب میں مطلوبہ متن کی تلاش بھی مشکل نہیں رہے گا اور اِس سے وقت کی بچت بھی ہوگی۔کتاب خانے کا تعلق کتاب سے ہے اور موجودہ مہنگائی و معاشی بحران کے دور میں کتاب کی اشاعت منافع بخش نہیں رہی جبکہ عوام کی قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے بھی کتابوں کی طلب میں کمی آئی ہے۔ شرح خواندگی کے لحاظ سے فن لینڈ دنیا کا سرفہرست ملک ہے لیکن کتب بینی کے لحاظ سے100 ممالک میں بھارت‘ تھائی لینڈ اور چین بالترتیب پہلی تین پوزیشنوں پر ہیں جبکہ پاکستان کا ذکر اُن پہلے 100 ممالک کی فہرست میں نہیں ہوتا جہاں کسی کتاب کا مطالعہ مشغلے‘ اور شوق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے!
ایک ایسی صورتحال میں جہاں نصاب کے علاوہ کتابیں پڑھنے کا رجحان (شوق) بھی نہ ہو‘ وہاں کتب خانوں کی عمارتوں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے اُس رجحان (برسرزمین حقیقت) کو سمجھنا چاہئے کہ کتاب کی ضرورت ختم نہیں ہوئی البتہ اِس تک رسائی کا انداز (طریق و اسلوب) بدل چکا ہے اور اب کتابیں کینڈل (kindle) و آن لائن بک سٹورز کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں جن کسی کتاب کو پڑھ کر سنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور قارئین و صارفین کی پسند و ناپسند کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی تجربہ کار لائبریرین کی طرح کتابیں تجویز بھی کرتے ہیں۔ مطالعے سے مشاہدے تک دنیا بدل چکی ہے اور اِس تبدیل شدہ دنیا (گلوبل ویلیج) کی تصوراتی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ضروری ہے کہ حسب حال حکمت عملی وضع کی جائے۔ اگر مقصد کتب بینی (مطالعے) کا فروغ ہے تو اِس کے لئے روایتی کتاب خانوں کو بطور ’صدر مقام‘ قائم رکھتے ہوئے ’آن لائن وسائل‘ سے استفادہ کیا جائے۔