وطن عزیز ایک بار پھر سیاسی انتشار کی زد میں ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ملک اور جمہوریت کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے اور اس کے منفی اثرات براہ راست عوام پر پڑتے ہیں۔اس بار سیاست کے حوالے سے عوامی ردعمل میں غیر معمولی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاست نام ہی اختلاف رائے اور اس کے برداشت کرنے کا ہے تاہم اس وقت جو حالات بنے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک پہنچایا گیا ہے جس کا خمیازہ بالاخر عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے اور انہیں مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں اس ایک نکتے پر متفق ہوں کہ میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کے ذریعے ملک کو درپیش مشکلات کا حل نکالنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ الجھے ہوئے معاملات سلجھ جائیں اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو۔
اس وقت اگر ڈالر کی اُڑا ن جاری ہے اور سونے کی قیمت میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی وجہ جہاں معاشی پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے وہاں سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے‘ اس وقت اگر لاکھ کوشش کی جائے کہ ملکی معیشت بحال ہو، سٹاک ایکسچینج میں تیزی ہو اور روپے کی قدر میں بھی اضافہ ہو تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہ ہو اور وہ سرمائے کو ڈالروں کی صورت میں محفوظ کرنے کی بجائے اسے مارکیٹ میں لگانے کیلئے تیار نہ ہوں۔ اور یہ تو واضح حقیقت ہے کہ جب تک غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ نہ ہو۔ حکومت اور مخالف سیاسی جماعتیں مصالحانہ روئیے کا مظاہرہ نہ کریں۔ مستقبل کا خاکہ واضح نہ ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنا اور ڈالر کی اونچی اُڑان کو روکنا مشکل ہے۔اب اس حقیقت کے قطع نظر کہ کسی جماعت کی حکومت ہے اور کون حکمران ہے یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک کو ان مشکل حالات سے نکالنے کیلئے کونسی پالیسی بہتر ہوگی۔
اسے بد قسمتی سمجھئے کہ اس وقت قومی منظر نامے پر جو کشیدگی ہے اس میں کمی لانے اور فریقین کے درمیان مصالحت کیلئے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں اٹھائے جار ہے۔ حالانکہ دونوں طرف سے یہی کہا جارہا ہے کہ انتخابی اصلاحات اور مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے مل جل کر چلنا ہوگا تاہم کون پہلا قدم لیتا ہے اور کون اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے مخالف فریق کے ساتھ بات چیت کیلئے راہ نکالتا ہے،پوری قوم کی نظریں اس وقت ایسی کوششوں کی منتظر ہیں۔حالات نہ سدھرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس وقت یا توقابل ذکر تمام سیاسی جماعتیں حکومت میں ہیں یا پھرحکومت کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔تاہم ہر حالت میں رواداری اور ایک دوسرے کا موقف سننے کے نتیجے میں مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور اس وقت بھی اسی روئیے کی ضرورت ہے کیونکہ ملکی سا لمیت اور جمہوری اداروں کا استحکام ہر چیز پر مقدم ہے۔