صنفی فرق

جمہوریت کی بنیاد عام انتخابات ہوتے ہیں جن کے انعقاد کے لئے رائے دہندگان (ووٹرز) کا تعین عمر کے لحاظ (سن بلوغت) سے کیا جاتا ہے اور اصولاً جمہوریت کی تکمیل اِس میں ہے کہ ’صنفی (مرد و عورت کے درمیان) امتیاز (فرق)‘ کئے بغیر بالغ آبادی کی بنیاد پر ووٹر رجسٹرڈ کئے جائیں۔ اِس تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے جانئے کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد بارہ کروڑ گیارہ لاکھ نوے ہزار (121.19ملین) سے زیادہ ہے جن میں چھ کروڑ پینسٹھ لاکھ (66.5 ملین) سے زیادہ مرد اور پانچ کروڑ چھیالیس لاکھ (54.69 ملین) سے زیادہ خواتین ہیں۔ اگر رجسٹرڈ مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان اِس فرق کو آبادی کا تناسب مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو مجموعی فرق 9.74 فیصد کا بنتا ہے یعنی ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ سے زیادہ خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

 اِس صورتحال کا زیادہ تشویشناک‘ لائق توجہ‘ لائق غور اور حکومتی سطح پر زیرغور پہلو یہ ہے کہ دو صوبوں (خیبرپختونخوا اور بلوچستان) میں مرد و خواتین رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں فرق ”10فیصد“ سے زیادہ ہے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خواتین کی بڑی تعداد کا ووٹ رجسٹرڈ نہیں ہے! ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ (20.61ملین) سے زیادہ ہے جن میں ’ایک کروڑ چودہ لاکھ (11.48ملین)‘ یعنی آبادی کا 55.73 فیصد مرد جبکہ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد ’اکیانوے لاکھ (9.12 ملین)‘ ہے اور رجسٹرڈ ووٹرز کا یہ صنفی فرق 11.46 فیصد بنتا ہے مطلب یہ کہ خیبرپختونخوا میں کم سے کم اور قریب ساڑھے گیارہ فیصد خواتین کی آبادی بطور ووٹر ”رجسٹرڈ نہیں ہے!“ لمحہئ فکریہ ہے کہ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی کم تعداد کا فرق بلوچستان میں قریب چودہ فیصد (13.96 فیصد) ہے۔ 

یہی فرق پنجاب میں 45.51فیصد‘ سندھ میں 45.12فیصد جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 5.98فیصد ہے جو ملک کے کسی بھی حصے میں پایا جانے والا کم ترین ’صنفی فرق‘ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے اور ہر ضلع بشمول وفاقی دارالحکومت میں خواتین کو اُن کی آبادی کے تناسب سے حق رائے دہی حاصل نہیں ہے۔ اِن اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف حکومتی ادارے بشمول ’الیکشن کمیشن آف پاکستان خواتین کے حسب ِآبادی ووٹ رجسٹریشن اور آگاہی مہمات کا باقاعدگی سے اِنعقاد کرتا ہے لیکن تاحال اِس کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔رواں ہفتے (ستائیس جولائی دوہزاربائیس کے روز) نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین (طارق ملک) نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران کہا کہ ”سال دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد سے اب تک ایک کروڑ (10ملین) خواتین کے نام رجسٹرڈ ووٹرز کے طور پر فہرستوں میں شامل کر لئے گئے ہیں“

 اگر یہ دعویٰ درست ہے تو سال 2021ء میں خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد جو کہ پانچ کروڑ اُنہتر لاکھ پچاس ہزار (56.95ملین) تھی بڑھ کر چھ کروڑ سے تجاوز کر جانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہے خواتین ملک کی مجموعی آبادی کے نصف سے زیادہ ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں 10 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ مرد اور 10 لاکھ 13 ہزار خواتین ہیں اور اگر 2017ء کی مردم شماری کا موازنہ 1988ء کی مردم شماری سے کیا جائے تو پاکستان کی آبادی میں سالانہ 2.40 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر سال بطور ووٹر رجسٹر ہونے کی اہل خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن اُن کے کوائف حسب تعداد ووٹرز فہرستوں کا حصہ نہیں بن رہے! خواتین کو رائے دہی کے عمل میں حسب ِآبادی شامل کرنے کے مقصد و ہدف کو حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی پر نظرثانی کی متقاضی ہیں۔ 

ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کر دیا گیا ہے اور پالیسی فیصلے کے تحت انہیں ووٹ رجسٹریشن تک رسائی بھی دے دی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں ’عورت فاؤنڈیشن‘ نامی غیرسرکاری تنظیم کا کردار قابل ذکر ہے جنہوں نے ”افراد‘ حکومتوں اور سول سوسائٹی کے ذریعے خواتین کے شہری اور سیاسی حقوق کے فروغ اور تحفظ (نامی پروگرام)“ کے حوالے سے کوششیں کی ہیں اور مذکورہ شعبوں میں متعلقہ سرکاری اداروں‘ عوام اور ذرائع ابلاغ سے رابطے میں ہیں تاہم خواتین کے ووٹوں کی حسب آبادی و تناسب رجسٹریشن کے لئے سول سوسائٹی اور غیرسرکاری تنظیموں کی دوڑ دھوپ کے علاوہ جملہ سیاسی جماعتوں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آخری انتخابی فہرست سال دوہزاراٹھارہ کے بعد سے آج (جولائی دوہزاربائیس) تک‘ مردوں کے مقابلے خواتین ووٹرز کے اندراج میں 53.2 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

 ماضی میں بھی کہا گیا کہ متعلقہ اداروں (الیکشن کمیشن اور نادرا) کی توجہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر ہے جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کا صنفی فرق ”دس فیصد“ سے زیادہ ہے۔ ووٹر رجسٹریشن کے لئے ملک بھر میں 109 نئے دفاتر کھولے گئے ہیں جن میں سے 19صرف خواتین کے لئے مخصوص ہیں علاوہ ازیں 10 گشتی موبائل رجسٹریشن وینز کی صورت بھی یہ سہولت دی جا رہی ہے تاکہ خواتین کو سیاسی فیصلہ سازی میں شراکت کے ذریعے ”بااختیار“ بنایا جائے۔ فیصلہ سازوں کو نادرا کے اُن 258 مراکز کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہئے کو ہفتہ وار تعطیل کے دوران بھی کام کرتے ہیں۔

 اِن کے علاؤہ 222 موبائل وینز سے حاصل نتائج کو الگ سے دیکھنا چاہئے جن کا مقصد دور دراز یا پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کی رجسٹریشن تھا۔ آغاز ِسفر میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ملک کے ایسے تمام اضلاع و علاقائی سطح ”چھیاسٹھ صنفی ڈیسک“ قائم کئے جائیں گے جہاں ”صنفی فرق“ دس فیصد یا اِس سے زیادہ تھا لیکن اِس سوچ سے بھی مقصد و ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ اگر گھر گھر جا کر پولیو و دیگر مہمات ہو سکتی ہیں تو خواتین کے قومی شناختی کارڈز کا اجرأ اور بطور ووٹر اِن کی رجسٹریشن کیوں نہیں ہوسکتی؟ ’صنفی فرق‘ کم کرنے کے لئے خواتین اہلکاروں کی مدد اور پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔