ناصر علی سید
جب بھی نصف شب کے بعد کہیں باہر سے پشاور واپس آنا ہو، تو سارا راستہ اندھیرے میں ڈوبا ہو تا ہے سڑکوں پر ٹریفک بھی بہت کم رہ جاتی ہے، روشنی بس آنے جانے والی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی ہوتی ہے جو لمحہ بھر کے لئے گرد و پیش کے ماحول کو روشن کر دیتی ہیں ورنہ سفر اپنی گاڑی کی روشنی کے تعاقب میں طے ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کچھ روشنی کے آثار سڑک کنارے کے فلنگ سٹیشنز یا دور پار کے قصبات کے بھی دکھائی دیتے ہیں پھر پشاور کے پہلے فلائی اوور کے اوپر بلبوں کی ایک قطار روشن دکھائی دیتی ہے لیکن جب دور ہی سے کوئی علاقہ بقعہئ نور نظر آنے لگتا ہے تو لب پر یہی آ جاتا ہے کہ ”پشاور جاگ رہا ہے“ چراغاں کا یہ منظر سڑک کنارے صبح دم تک کھلے رہنے والے ان قہوہ خانوں کی تیز روشنیوں کا ہو تا ہے جن کے باہر کرسیوں اور چھوٹی چھوٹی چوبی چوکیوں پر بیٹھے شہر کے خوش فکرے اور منچلے رتجگا منا رہے ہو تے ہیں، پہلے پہل تو یہ اکٹھ محض قہوہ پینے تک ہی محدود تھا اور اس کا مر کز مشہور تاریخی بازار ”قصّہ خوانی“ تھا۔ شہر بھی فصیل کے اندر سمٹا ہوا تھا مگر پھر جب یا ر لوگ فصیل سے باہر نکل آئے تو ان مراکز میں بھی اضافہ ہو گیا اب جو چار بڑے مراکز ہیں ان میں قصہ خوانی اور ہشتنگری کے ساتھ ساتھ گھنٹہ گھر(بازار ِ کلاں) اور ناز سینما روڈ کی مغربی نکڑ ہے جو اس سڑک کو چھوتی ہے جو نذر باغ سے کابلی دروازہ اور قصہ خوانی کی طرف جاتی ہے اس کو ایک زمانے میں احمد فراز کے نام سے موسوم کیا گیا تھا مگر جس بورڈ پر اس سڑک کا نام لکھا تھا تو نام میں املا کی قابل گرفت غلطی کی نشان دہی روزنامہ آج کے اس کالم پیج پر محبی مشتاق شباب نے کی تھی،سبکساران ِ ساحل نے ”فراز“ کا نام ”زے“ کی بجائے ”رے“ سے لکھ کر مضحکہ خیز صورت حال بنا دی تھی
جس کا فوری نوٹس لیا گیا اور وہ بورڈ وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے ہٹا دیا گیا (بریں عقل و دانش بباید گریست) خیر یہ تو ایک قصّہ معترضہ تھا، بات پہلے پہل قہوہ پینے کیلئے شہر کے خوش فکروں کی قہوہ خانوں کے باہر بیٹھنے کی تھی دن بھر کی کھٹی میٹھی گپ شپ اور تلخ قہوہ کی چسکی کا اپنا ہی ایک لطف تھالیکن پھر کچھ طالع آزماؤں نے ان قہوہ خانوں کے باہر کچھ اور اشیاء کی ریڑھیاں بھی لگا لیں،ان میں سے پکوڑے اور (وڑے) گھنٹہ گھر کے نیچے ایک بابا جی بیچتے تھے رمضان کے مہینے میں جب ہم کچھ دوست جن میں نذیر تبسم، صلاح الدین، ساجد سرحدی،انور خان، محمد انور اور سعید پارس سمیت کچھ دیگر (اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے) تراویح کے بعد سحری تک بیٹھا کرتے تھے تو مجھے یاد ہے کہ پہلی بار سعید پارس نے دوستوں کو یہ ”دال کے بڑے“ کھلائے تھے اور پھر یہ خوش ذائقہ آئٹم قہوہ کے ساتھ لازمی قرار پایا تھا، نئی کھلنے والی دکانوں میں پراٹھا اور فرائی انڈہ بھی بہت مقبول ہوا۔ ویسے تو سب جگہ مگر اس کی مقبولیت کا آغاز ناز سینما روڈ کے قہوہ خانوں سے ہوا تھا، شہر کے ان قہوہ خانوں کی گونج ادبی دنیا میں تو تھی کہ شاہ ولی قتال کے قہوہ خانے سمیت بہت سے شعراء و ادباء قصہ خوانی،کریم پورہ، یکہ توت، ہشتنگری اور ڈبگری کے قہوہ خانوں میں بھی شام ڈھلے بیٹھتے تھے اور بہت سی ادبی تحریکیں بھی انہیں جگہوں سے آغاز ہوئیں اور پروان چڑھیں، مگر سرحد کے اس پار بالی وڈ پر راج کرنے والے پشاوریوں نے بھی اپنے انٹرویوز میں گاہے گاہے ذکر کیا، بلکہ ابھی ہفتہ عشرہ پہلے غالباً رشی کپور کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے اپنے آباء کی حویلی کے بارے میں بتاتے ہوئے قصہ خوانی کا ذکر کیا اور وہ صحیح نام لے رہے تھے
مگرشاید انہیں خیال آیا کہ نام کہیں غلط نہ ہو جائے تو انہوں نے قصہ خوانی کا انگریزی ترجمہ بھی ٹھیک ہی کر کے سنایا، پرتھوی راج اور یوسف خان کا تو حافظہ ہی قصہ خوانی اور اس کے قہوہ خانے کا ذکر رہا جس سے وہ بڑے لوگ توانائی لیتے تھے۔ یہی حال باہر کی دنیا میں رہنے والے پشاوریوں کا ہے وہ بھی بہانے بہانے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے تخیل اور اپنی محفلوں میں اس شہر طرح دار اور اس کے بازاروں اور ریستورانوں کو یاد کرتے رہتے ہیں، یادش بخیر میں نے عتیق صدیقی کے بارے میں انہی کالموں میں لکھا ہے کہ بنگ ہیمٹن میں جب ہم رات گئے کافی پینے یا آئس کریم کھانے جاتے تو لمبی ڈرائیو پر واقع ایک فیورٹ علاقے کا رخ کرتے جس کا مقصد لمبی ڈرائیو کے دوران مختلف بازاروں اور مارکیٹوں سے گزرتے ہوئے پشاور کو یاد کرنا ہوتا، عتیق صدیقی ڈرائیونگ کے ساتھ رواں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے اب ہم ہشتنگر ی سے گزر رہے ہیں یہ اب چوک یادگار کا علاقہ ہے
یہ قصہ خوانی اور یہ نمک منڈی۔پھر کچھ دیر کے لئے چپ ہو جاتے میں بھی نہیں پوچھتا کیونکہ مجھے معلوم ہے اب وہ سچی مچی ماضی میں کھو گئے ہیں کچھ مہرباں اور کچھ مہ تاباں چہرے ان کو چپ کرا دیتے ہیں۔میں ان کے ہاں ہفتوں نہیں مہینوں بھی قیام کرتا رہا ہوں مگر ان کا ”شہر خوباں“ سے رومینس کبھی ختم نہیں ہو تا، اسی طرح شیراز پریس اور کبھی کے شیراز ہوٹل والے دوست حنیف قریشی بھی انگلینڈ کے دنوں کی داستان سناتے ہوئے اسی طرح جذباتی ہو جاتے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میرے ایک شاگرد سجاد حسین نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ شام کو اکثر اوقات اپنے پشاوری دوستوں کو بلا کر پشاور کی باتیں کرتے ہیں، اس شام میں اپنے ہاتھ سے پشاوری پکوان بناتا ہوں۔جس پر میں نے انہیں بتایا کہ نیویارک کے جیکسن ہائٹس میں شاعر و دانشور جوہر میر کے اپارٹمنٹ کو معروف مزاح نگار شاعر ضمیر جعفری ”پیر خانہ“ کہتے تھے کیونکہ میر جی ہر پیر (سوموار) کو اپنے ہاتھ سے پشاوری شولہ،بڑے پائے،نہاری، حلیم اور نہ جانے کیا کچھ اپنے ہاتھ سے بناتے اور بیسیوں دوست شام کو وہاں آ جاتے شعر و ادب اور ثقافت پر گفتگو بھی ہوتی اور کھانا بھی کھایا جاتا۔ گزشتہ کل کینیڈا میں مقیم بہت عمدہ شاعر خالد رؤف قریشی نے ای میل کے ذریعے اپنے نئے شعری مجموعہ کا پیش لفظ شئیر کیا تو اس میں بھی پشاور کی کچھ بہت ہی معتبر ہستیوں اور کچھ ریستوران کا ذکر کیا، خالد رؤف نے پشاور کی سحر انگیز شاموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ایک عجیب ماحول تھا، شامیں خاص کر بہت پر رونق ہوتی تھیں،مختلف ریستوران ان ادیبوں کے اڈے ہوا کرتے تھے“ انہوں نے کچھ نام بھی لکھے ہیں، ایک نام ”کیفے ڈی جمیل“ کا بھی لکھا ہے،مجھے یہ ریستوران یاد نہیں شاید میں کبھی نہیں گیا یا پھر میرے پشاور آنے سے پہلے بند ہو گیا تھا، مجھے اسی زمانے میں کچھ بند ہونے والے ریستوران یاد ہیں جن میں ایک بہت چھوٹا سا ریستوران ”بمبینو“ بھی تھا،
چکر والی سیڑھیوں سے ہم اوپر جاتے اور بانسوں سے سجی کیفی میں چائے پیتے۔شہر میں بھی اب اس طرح کے طائے خانے نہیں رہے نہ شیراز نہ شبستان اور نہ ہی کیسینو جہاں کئی ماہ و سال پر پھیلی سانولی سلونی شامیں اب بھی یادوں میں دھمال ڈالتی ہیں اور دیوانہ دل بھی اسی لے کے ساتھ محو رقص ہو جاتا ہے،آج ہی مجھے فی نکس ایری زونا میں مقیم معروف انشائیہ و افسانہ نگار مشتاق احمد کے افسانوں پر لکھا ہوا ایک تبصرہ مو صول ہوا ہے جسے پڑھ کر جیسے بے خیالی میں کالم کا موضوع شہر خوباں کی کہانیاں سناتے ہوئے قہوہ خانوں کی طرف مڑ گیا اور مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کس موضوع پر کالم باندھنا تھا، یہ تبصرہ اور ممتاز افسانہ ناول نگار شاعر ارشاد صدیقی نے لکھا ہے اور انہوں نے مشتاق احمد کی کہانیوں کو قصہ خوانی کی سرائے کے قصہ گوکی کہانیوں کے تسلسل میں دیکھا پرکھا اور بتایا کہ کس طرح پہلے پہل پشاور بھی یہ کہانیاں سننے جاتے پھر وہ ساتھ گھر کا کھانا لے جانے لگے پھر قہوہ تو طعام شب کا لازمی جزو ہے سو یہ رواج چل پڑا، مجھے ان کے تبصرہ نے دیر تک اپنی گرفت سے نکلنے نہ دیا،اس زمانے کی شاموں کے ذکر نے منیر نیازی کے حوالے کر دیا۔
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو