منشیات انسان کیساتھ ساتھ معاشرت و معیشت کیلئے خطرناک زہر ثابت ہورہی ہیں ظاہرہے کہ جب انسان مفلوج ہوگا اسکے اثرات معاشرے اور معیشت دونوں پر مرتب ہو نگے ا س معاملہ کو ہمیشہ ہم صرف انفرادی تناظر میں دیکھنے کی غلطی کرتے ہیں اس وقت صور تحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ وطن عزیز میں کم وبیش 70لاکھ افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہوکر عملی طورپر معاشرہ اورمعیشت پر بوجھ بن چکے ہیں‘اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2021ء کے مطابق دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنیوالے افراد کی تعداد تقریباً27 کروڑ 50لاکھ ہے جب کہ 3کروڑ60لاکھ سے زائد افراد منشیات کے استعمال کے عوارض کا شکار ہوئے‘دنیا بھر میں ہیروئن، کوکین، چرس، بھنگ، آئس، کرسٹل میتھ اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے سالانہ کئی لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں
2010ء سے2019ء کے درمیان منشیات استعمال کرنیوالوں کی تعداد میں 22فیصد اضافہ ہوا، جس کی وجہ عالمی آبادی میں اضافہ ہے‘ دنیا میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے لیکن اسکا علاج بھی ممکن ہے‘صرف آبادیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر، موجودہ تخمینوں کے مطابق 2030ء تک عالمی سطح پر منشیات کا استعمال کرنیوالے لوگوں کی تعداد میں 11فیصد اضافے کا خدشہ ہے جبکہ افریقا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کے باعث 40فیصد تک اضافہ ہونے کا امکان ہے‘عالمی اندازوں کے مطابق، 15سے 64سال کی عمر کی تقریباً 5.5فیصد آبادی نے 2020ء میں کم از کم ایک بار منشیات کا استعمال کیا جبکہ 3کروڑ 63 لاکھ افراد یا منشیات استعمال کرنیوالے افراد کی کل تعداد کا 13فیصد، منشیات کے استعمال کی خرابی کا شکارہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر1کروڑ10لاکھ سے زائد لوگ انجیکشن کے ذریعے منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف ہیپاٹائٹس سی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں‘ افیون اور کوکین جیسی مسکن ادویات کا منشیات کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں میں سب سے بڑا حصہ ہے‘
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70لاکھ سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ملک میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ہیروئن، کوکین اور آئس کا نشہ قابل ذکر ہیں دیہات کے مقابلے میں شہری آبادی میں منشیات کے استعمال کی شرح زیادہ ہے‘ ملک بھر میں ہر سال اربوں روپے مالیت کی منشیات استعمال کی جاتی ہیں۔ منشیات استعمال کرنے والے افراد ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔حتیٰ کہ اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم(جن کی عمریں 13سے 25سال کے درمیان ہیں)بھی منشیات کی لعنت کا شکار ہیں‘اسلام میں جن کاموں کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور جن سے منع فرمایا گیا ہے ان میں ایک نشہ کا استعمال بھی ہے کیوں کہ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کے اخلاق و کردار ہیں، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کر کے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب کر تا ہے اور انسان کی روحانی اور باطنی ناپاکی ظاہری ناپاکی سے بھی زیادہ انسان کیلئے مضرت رساں ہے نشہ کے جو نقصانات ہیں وہ ظاہر ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان تو خود اس شخص کی صحت کو پہنچتا ہے، انسان کے وجود سے نہ صرف اس کے بلکہ سماج کے بہت سے اور لوگوں کے حقوق بھی متعلق ہیں، نشہ کا استعمال اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے
اسی لئے نشہ آور اشیاء کے ساتھ ساتھ ایسی چیزوں سے بھی منع فرمایا گیاہے جو جسم کیلئے ”فتور“ کا باعث بنتی ہوں‘یعنی ان سے صحت میں خلل واقع ہوتا ہو‘ منشیات کے نقصانات کا دوسرا پہلو مالی ہے۔ سیال منشیات ہوں یا جامد، اچھی خاصی قیمت کی حامل ہوتی ہیں‘ شراب کی ایک بوتل اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے لوگوں کا ایک کنبہ اس سے اپنی ایک وقت کی روٹی روزی کا سامان کر لیتا ہے، چرس کی ایک پڑیا یا پھر آئس کا ایک وقت کانشہ ان دنو ں ٹھیک ٹھاک قیمت پرہی ممکن ہے یہ تو معمولی نشہ آور اشیاء کا حال ہے، بعض منشیات تو اتنی مہنگی ہیں کہ ایک کلو کی قیمت کروڑ روپے ہوتی ہے، نشہ خوری نے خاندان کے خاندان کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، بڑی بڑی جائیدادیں اور پر شکوہ حویلیاں اس خود خرید زہر کے عوض کوڑی کی قیمت بِک چکیں منشیات کی مضرتوں کا سماجی پہلو یہ ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے جس سے مختلف لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریاں متعلق ہیں ایک شخص باپ ہے تو اسے اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت کرنی ہے، نہ صرف اس کے روز مرہ کی کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے بلکہ اس کی تعلیم کی بھی فکر کرنی ہے،
وہ بیٹا ہے تو اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور اگر خاندان کے دوسرے بزرگ موجود ہوں تو ان کی پرورش کا بار بھی اٹھانا ہے، شوہر ہے تو یقیناً بیوی کے حقوق اس سے متعلق ہیں، بھائی ہے تو چھوٹے بھائی بہنوں کی پرورش اور شادی بیاہ کا فریضہ اسی کے کاندھوں پر ہے‘نشہ انسان کو اپنے گرد و پیش سے بے خبر اور غافل بنا دیتا ہے، اور اس بد مستی میں نہ اس کو لوگوں کے حقوق یاد رہتے ہیں، نہ اپنے فرائض و واجبات، بعض اوقات تو وہ ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی تباہ و برباد کر دے‘ جیسے طلاق کے واقعات ہیں، طلاق کے بہت سے واقعات بالخصوص دیہی علاقوں میں اسی نوعیت کے ہوتے ہیں، جس کا خمیازہ اسے بھی بھگتنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ اس کی بیوی اور بچوں کو۔نشہ صرف برائی ہی نہیں‘ بلکہ برائیوں کی جڑ ہے اور محض ایک گناہ ہی نہیں بلکہ سیکڑوں گناہوں کا سر چشمہ ہے،
ان دنوں آئس نامی نشہ کے کرتو ت ہر روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اس بدبخت نشہ کی بدولت اب گھرگھر میں قتل ہونے لگے ہیں شوہر بیوی کو قتل کردیتاہے تو بیٹا والدین میں سے کسی کی جان لے لیتاہے بھائی اپنے بھائی کی جان لینے سے نہیں ہچکچاتا کسی زمانے میں ہیروئن کو بے غیرت قسم کانشہ کہاجاتاتھاکیونکہ ہیرہوئن پینے والوں کی جوحالت ہوتی ہے وہ ہمیں اپنے شہر پشاور میں جابجادکھائی دیتی ہے ہیروئن کے بعد اب آئس کے نام سے جو نشہ سامنے آیاہے وہ قاتلانہ رجحانات رکھنے والا نشہ بن گیاہے جس سے رفتہ رفتہ گھرانے اجڑتے جارہے ہیں‘ لوگوں نے منشیات کو نئے نئے خوبصورت نام دے دیئے ہیں‘گٹکے‘چاکلیٹ اور مختلف دوسری اشیاء کے ساتھ نشہ کا نام لئے بغیر تھوڑا تھوڑا نشہ آور اجزاء کا طلبہ اورنوجوانوں کو عادی بنایا جاتا ہے، اور یہی چیز اس کو آئندہ منشیات کا باضابطہ خوگر بنا دیتی ہے‘ پشاور کی حد تک نشئی افراد کی بحالی کے حوالہ سے ڈویژنل اورضلعی انتظامیہ نے ایک مہم بھی شروع کی ہوئی ہے جس کے ذریعہ گلی کوچوں میں رلنے والے نشئی افراد کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی مل رہی ہے مگر دوسر ی طرف منشیات فروشوں کے مضبوط نیٹ ورک کی و جہ سے اب مزید نوجوان گلی کوچوں میں رلتے دکھائی دینے لگے ہیں اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نشئی افرادکی بحالی کیساتھ ساتھ منشیات فروشوں کے نیٹ ورک پر بھی پکا ہاتھ ڈالا جائے بصور ت دیگر منشیات کازہر ہمارے معاشرے کو بہت تیز ی کے ساتھ مفلوج کرکے رکھ دے گا۔