تکنیکی غلطی

گوگل (Google) نامی کمپنی کیلئے ’سرچ انجن‘ اور ’ویب براؤزر‘ کے بعد معلومات کی فراہمی تیسرا بڑا چیلنج ہے لیکن اِس کوشش میں کامیابی پر ناکامی حاوی دکھائی دے رہی ہے جیسا کہ ’کرنسی کنورٹر‘ کے نام سے فراہم کی جانے والی ’گوگل‘ خدمات میں ایک ’حیرت انگیز‘ اور ’سنگین خرابی‘ کا انکشاف ہوا ہے‘ عمومی تصور یہی ہے کہ ”فرمان تابع کمپیوٹرز“ کبھی غلطی نہیں کرتے بلکہ اِنہیں جس مقصد (کام یا ذمہ داری) کیلئے تخلیق کیا جاتا ہے یہ اُسی کو بار بار دہراتے ہیں

البتہ جہاں جہاں مشینوں کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے لیس کرنے کی کوشش میں تجربات کئے گئے ہیں وہاں وہاں تخلیق کاروں اور صارفین کو کسی نہ کسی لمحے مایوسی (شرمندگی) کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے ہی مایوس کن لمحات ’28 جولائی 2022ء کی شام دیکھنے میں آئے جب امریکی ڈالر اور پاکستانی روپے کا انٹربینک شرح تبادلہ 236 روپے سے زیادہ تھا لیکن گوگل نے پاکستانی روپے کی قدر ”207 روپے 10 پیسے“ ظاہر کر دی‘ جس کی وجہ سے مارکیٹ سے ڈالر ایسے روپوش ہوئے کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں! سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ڈالروں کو زمین کھا گئی یا ہوا نے نگل لیا‘ایک طرف ضرب صرافہ کے تاجر گومگو کی کیفیت سے دوچار تھے

تو دوسری طرف خریداری اور ڈالر فروخت کرنے کے خواہشمندوں کو کسی نتیجے (فیصلے) تک پہنچنے میں دقت ہو رہی تھی! یوں ڈالر سے جڑی پاکستانی معیشت کئی گھنٹے اور اُس وقت تک معطل رہی جب تک ’گوگل‘ کی جانب سے کی گئی غلطی کو درست نہیں کیا گیا  یوں ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ دیکھنے میں آیا جو انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ بالخصوص مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبوں میں تادیر یاد رکھی جائے گی‘

اِسے بطور مثال بھی ذکر کیا جاتا رہے گا‘گوگل کی جانب سے (کئی گھنٹوں بعد) غلطی کا بلاواسطہ اعتراف ٹیکنالوجی ماہرین کی وساطت سے کیا گیا جنہوں نے اِسے ”ممکنہ تکنیکی خرابی“ قرار دیا حالانکہ یہ ”صریحاً تکنیکی خرابی“ تھی اور تجزیہ کار یہ بھول گئے کہ کم سے کم گزشتہ چھ برس سے روپے و دیگر کرنسیوں کی قدر ظاہر کرنے کا یہ طریقہئ کار قابل بھروسہ رہا ہے کیونکہ اِسے بنانے میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے بھی کام لیا جاتا ہے تاہم یہ حکمت ِعملی بالآخر غلط (ناکافی) ثابت ہوئی ہے اور خاص بات یہ ہے

کہ انسانی عقل کے مقابلے میں کمپیوٹروں کی معاشی نظام پر اجارہ داری کے منفی پہلوؤں کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہے کیونکہ جب کمپیوٹروں پر مکمل (سوفیصدی) انحصار کیا جانے لگے گا تو ایسی کوئی ایک بھی غلطی کسی ملک یا صارفین کی معیشت کا  لمحوں میں بیڑا غرق کر سکتی ہے! کمپیوٹرز آلات کی مدد سے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کا یہی پہلو سب سے زیادہ ڈروانا ہے‘ کہ اِس پر بھروسہ تو کیا جا سکتا ہے

لیکن کلی طور پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘پاکستانی نژاد امریکی شہری سیّد سعید الزمان گیلانی‘ اپنی ’معاشی ہجرت‘ کے قریب پچیس سال مکمل کرنے والے ہیں اور اِن دنوں اپنے آبائی شہر (اندرون یکہ توت) پشاور کا گمشدہ سکون اور خوشیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں‘ جو کبھی یہاں کا خاصا (قابل دید) ہوا کرتا تھا‘پشاور شناسی کے دل و دماغ پر نقوش (بوجھ) لئے اِن کے مختصر قیام میں جہاں پشاور زیرنظر ہے وہیں ایک آنکھ ڈالر اور روپے کے درمیان شرح تبادلے کے فرق پر بھی لگی رہتی ہے کیونکہ ایک اوسط محنت کش کیلئے آمدنی کا بہترین نعم البدل نہ صرف اپنے آپ بلکہ اردگرد لوگوں کیلئے بھی کئی ایک (لاتعداد) معاشی مسائل کا حل ہو سکتا ہے اور درحقیقت یہ ’معاشی نظام‘ ہی ہے جو خاندانی و سماجی نظاموں سے لیکر ہر قسم کی خوشی و غم سے جڑی رسومات (معمولات) کی ادائیگی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے؛معیشت بیک وقت کسی معاشرے کیلئے باعث خیر و شر کس طرح ہوتی ہے‘

اِس سلسلے میں کسی اور مرحلہئ فکر پر بات کی جائے گی یہاں صرف ’ڈالر‘ سے جڑے خواب اور اُمیدوں کا ذکر مقصود ہے کہ بیرون ملک خون پسینہ ایک کر کے محنت مزدوری کرنیوالوں کی اکثریت جب بھی اپنے آبائی شہروں (گھروں) کا رخ کرتی ہے تو اُنہیں ڈالروں کے عوض زیادہ پاکستانی روپے ملنے کی اُمید (توقعات) ہوتی ہیں لیکن جب سائنس و ٹیکنالوجی پر فخر کرنے اور اِسے مثالی قرار دینے والے امریکی ادارے (گوگل) کی جانب سے تکنیکی غلطی کا ارتکاب دیکھتے ہیں صدمے اور حیرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرنے سے خود کو روک نہیں سکتے۔ گیلانی نے گوگل پر یقین نہیں کیا اور ڈالر کی قدر کم ہونے کی خبر ملتے ہی اپنے ’آئی پیڈ پرو‘ کے ذریعے ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ‘ تک رسائی حاصل کی‘ جہاں ’حب الوطنی‘ کے جذبے سے اُن کی جمع پونجی کا کچھ حصہ محفوظ پڑا ہے‘جب گوگل فی ڈالر 210 روپے ظاہر کر رہا تھا تو اُس وقت پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے (اسٹیٹ بینک) کی جانب فی ڈالر انٹربینک نرخ 236 روپے سے زیادہ تھا! اور یہی وہ خاص لمحہ تھا

جہاں ڈالر کی قدر سے جڑے انفرادی فائدے کا سوچتے ہوئے تسلی و اطمینان کے جذبات خوف پر غالب آئے؛ فی الوقت ”گوگل“ نے ’مبینہ تکنیکی غلطی‘ درست کر لی جوتکنیکی طور پر پاکستانی روپے کی قدر میں آئے روز کمی کی وجوہات‘ زرمبادلہ کے قومی ذخائر میں تیزی سے ہونیوالی کمی اور سیاسی عدم استحکام سے پیدا ہونیوالے محرکات ہیں‘ سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر تک کم ہونے کے بعد منجمند کر دیئے گئے‘ ظاہر ہے کہ روپے کے شرح تبادلہ میں اِس کمی کیلئے ’گوگل‘ ذمہ دار نہیں اور نہ ہی ’گوگل‘ گرتی ہوئی پاکستانی کرنسی کی غلط قدر ظاہر کر کے اِسے دائمی سہارا دے سکتا ہے‘

جس کی شاید ایک کوشش (تجربہ) اپنی جگہ ناکام ہوا ہے! ذہن نشین رہے کہ ستمبر 1998ء میں ’گوگل‘ نامی امریکی کمپنی کا آغاز ہوا‘  یہ خدمات اِس سے قبل مختلف ادارے پیش کر رہے تھے اور جب گوگل نے غلط نرخ دکھائے تو اُس وقت XE نامی کمپنی کے اعدادوشمار درست پائے گئے‘ جو ’کرنسی کنورٹر‘ کی دنیا میں اب بھی ’گوگل کرنسی کنورٹر‘ سے زیادہ بہتر ساکھ رکھنے والی ویب سائٹ ہے۔پاکستان جیسی متزلزل معیشت میں جہاں قومی فیصلہ سازوں کی جانب سے طرز حکمرانی میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے استفادہ کرنے میں پہلے ہی ہچکچاہٹ اور تردد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے

وہاں اگر کرنسی کنورٹر جیسی ’تکنیکی خرابیوں‘ کو جواز بنا کر پیش کیا جائے اور ’آئی ٹی‘ کی مخالفت ہونے لگے جو مالی و انتظامی بدعنوانیاں روکنے اور اہلیت کو ترجیح دینے کا بنیادی ذریعہ ہے تو ایسی صورت میں نقصان ’گوگل‘ کی ساکھ سے کہیں گنا زیادہ اور سنجیدہ نوعیت کے مسئلہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔