عمدہ مثال

خیبرپختونخوا کے لئے رواں مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے صوبائی بجٹ میں 205.72 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جن میں جاری اخراجات کے لئے 178.20 جبکہ نئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 23.31 ارب روپے رکھے گئے۔ علاج معالجے کی سہولیات میں توسیع کے علاوہ طب کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اور نجی شعبے کے تعاون سے ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام‘ کے تحت 5 میڈیکل کالجز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ میڈیکل کالجز بونیر‘ چارسدہ‘ مانسہرہ‘ ہری پور اور کرک میں قائم کئے جائیں گے جو صوبے میں طب کی تعلیم کو فروغ دینے کے حکومتی منصوبے کا سب سے نمایاں اظہار ہیں۔ عموماً بجٹ پیش ہونے کے بعد ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد سست روی سے ہوتا ہے لیکن اِس مرتبہ صورتحال قطعی مختلف ہے اور مذکورہ پانچ میڈیکل کالجز کے قیام کے لئے ایک ماہ کے اندر ’فزیبلٹی رپورٹ‘ پیش کر دی جائے گی جو صوبائی حکومت اور طب کے صوبائی نگران ادارے ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی عمدہ مثال ہے اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ اِس مربوط کوشش کو کچھ ایسی عمدگی سے عملی جامہ پہنایا جائے گا کہ اِس سے طب کی تعلیم میں ’کمرشل ازم‘ کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

 خیبرپختونخوا میں پانچ نئے میڈیکل کالجز کے قیام کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا تھا جس کے ساتھ یہ تقاضا بھی شامل تھا کہ موجودہ سرکاری میڈیکل کالجز اور سرکاری تدریسی ہسپتالوں کے وسائل سے ’بہتر اور زیادہ سے زیادہ استفادہ‘ کرتے ہوئے ’سیکنڈ شفٹ‘ شروع کی جائے علاؤہ ازیں چھ سرکاری میڈیکل کالجز  میں ہر نئے تعلیمی سال کے موقع پر داخلہ نشستوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ انتہائی بنیادی ضرورت کے طور پر طلبہ کے کلاس روم میں بیٹھنے اور ہاسٹلزمیں قیام و طعام کی گنجائش بڑھانے کی بھی ضرورت ہے  تاکہ درس و تدریس کا عمل متاثر نہ ہو۔ طب کے شعبے (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم میں باوجود مشکلات و مسائل بھی خیبرپختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار کافی حد تک بہتر ہے جس کی باضابطہ توسیع اور اِسے مثالی (عمدہ) بنانے پر بھی خاطرخواہ توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔نئے میڈیکل کالجز کے قیام کے لئے ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ اور ’محکمہئ صحت‘ کے درمیان اشتراک عمل غیرمعمولی ہے اور کام کی رفتار دیکھتے ہوئے امید ہے کہ اگلے دو ماہ (ستمبر دوہزاربائیس کے آخر تک) نئے میڈیکل کالجز کے قیام پر عملی کام شروع کر دیا جائے گا۔ سردست محکمہ صحت کو ہر ضلع کے منتخب نمائندوں (اراکین صوبائی اسمبلی) کی جانب سے میڈیکل کالجز کے قیام کے مطالبات موصول ہو رہے ہیں۔

 طب کی تعلیم میں خیبرپختونخوا کے سرکاری (پبلک سیکٹر) میڈیکل کالجز کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اِن میں انتہائی ذہین طلبہ کو داخلہ ملتا ہے جبکہ اوسط ذہین طلبہ جن میں اکثریت سرکاری سکولوں سے تحصیل یافتہ داخلہ اُمیدواروں کی ہوتی ہے‘ محروم رہ جاتے ہیں یا پھر نجی میڈیکل کالجز  چلے جاتے ہیں‘ جہاں نسبتاً زیادہ فیسیں و دیگر تعلیمی اخراجات کی ادائیگی اکثریت کے لئے مالی طور پر ناقابل برداشت ہوتی ہے۔خوش آئند ہے کہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے بجٹ میں منظور ہونے والے چار کی بجائے پانچ نئے میڈیکل کالجز کے قیام کے منصوبے کو ”جلد از جلد“ مکمل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں اور وہ اِس عمل کی نگرانی بھی کر رہے ہیں جس کے تحت متعلقہ محکموں کو واضح طور پر مطلع کر دیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی تاخیر قابل قبول نہیں ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ اِس مرتبہ میڈیکل کالجز کے قیام کے تفصیلات (فزیبلٹی رپورٹس) بنانے کے لئے کسی مشاورتی ادارے (کنسلٹنٹس) کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا جا رہا جو اپنی جگہ نہ صرف مالی وسائل کی بچت ہے بلکہ اُمید ہے کہ اِس کے ثمرات مستقبل کے دیگر منصوبوں پر لاگت کم کرنے کے ”رہنما اصول“ کے طور پر ظاہر ہوں گے۔

 خیبرمیڈیکل یونیورسٹی اِس سلسلے میں جس طرح اپنی اپنی مہارت و تجربے کو بروئے کار لا رہی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے اور مجوزہ کالجز کے قیام کی تشہیر عنقریب ہونے کی اُمید ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی میڈیکل کالج کے قیام کے لئے ”لازم“ ہے کہ ملک میں طب کا نگران وفاقی ادارے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (سابق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پی ایم ڈی سی)کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط اور شرائط پر پورا اُتر جائے جس کے لئے ضروری ہے کہ ہر میڈیکل کالج میں کم سے کم 500 بستروں کے ہسپتال ہونا چاہئے اور جن اضلاع میں نئے میڈیکل کالج بنائے جا رہے ہیں وہاں ملحقہ تدریسی ہسپتال بنانا یا سرکاری علاج گاہوں کے وسائل مختص کرنا بھی ترقیاتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ابتدائی جائزہ رپورٹس کے مطابق چند اضلاع میں ایسی عمارتیں موجود ہیں جن میں میڈیکل کالجز بنائے جا سکتے ہیں جبکہ جہاں ایسے امکانات نہیں وہاں نئے مقامات (قطعات اراضی) کی نشاندہی کر دی گئی ہے اور اِس سے صرف طب کی تعلیم کے شعبے میں ایک اہم ضرورت پوری نہیں ہوگی بلکہ پانچ اضلاع میں مقامی آبادی کو حاصل علاج معالجے کی سہولیات اور مریضوں کی دیکھ بھال بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ قابل ذکر ہے کہ فی الوقت ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ سے 10 سرکاری اور 5 ڈینٹل کالجز الحاق رکھتے ہیں جبکہ نجی شعبے (پرائیویٹ سیکٹر) میں 7 میڈیکل اور 3 ڈینٹل کالجز ہیں۔

 اِسی طرح خیبرپختونخوا میں اتنی ہی تعداد میں طب کی تعلیم کے دیگر ادارے بھی ہیں جو خیبرمیڈیکل یونیورسٹی سے الحاق نہیں رکھتے۔ خیبرپختونخوا میں 19 سرکاری ہسپتالوں کے وسائل معاہدے کے تحت نجی شعبے کے حوالے ہیں جبکہ ایک ماہ کے اندر 58 مزید صحت کی سہولیات کو نجی شعبے کے حوالے (آؤٹ سورس) کے منصوبے پر بھی الگ سے کام جاری ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میڈیکل و ڈینٹل کی معیاری اور کم خرچ میں تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ سرکاری وسائل اور صوبائی حکومت کی سالانہ ترقیاتی حکمت ِعملی کا مکمل و دائمی انحصار حکومتی نگرانی میں ہو اور نجی تعلیمی اداروں کو طب (میڈیکل و ڈینٹل) کے شعبے میں مکمل سرمایہ کاری کے لئے الگ سے پالیسی وضع ہونی چاہئے جو پاکستان کو طب کی تعلیم کا ’عالمی مرکز‘ بنا سکتا ہے اور خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی ’تعلیمی سیاحت‘ کے امکانات سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔