خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے نیا سنگ میل عبور کرلیا ہے یونیورسٹی نے ڈینگی بخار سمیت چار مہلک امراض پر تحقیق کا آغاز کر دیا ہے۔چار نئی تحقیقی لیبارٹریوں کے قیام کی بدولت مہلک بیماریوں کی تشخیص اب پشاور میں ہی ہوا کرے گی قبل ازیں یہ ٹیسٹ لاہور اور کراچی سے کروائے جاتے تھے جس سے اضافی اخراجات کے ساتھ بہت زیادہ وقت لگتا تھا۔یہ ایک اہم سنگ میل ہے جس کے صوبے میں طبی سہولیات اور معیاری علاج سے بڑھ کر تیز اور بروقت تشخیص میں مدد ملے گی، ا س میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی بیماری کے علاج میں ابتداء بروقت تشخیص سے ہی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں نئی ریسرچ لیبارٹریوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی محمود خان نے انکشاف کیا کہ حکومت صوبے میں قائم دو سو بنیادی صحت مراکز اور پچاس سے زائد دیہی صحت مراکز کو چوبیس گھنٹے چالو رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں چار نئے میڈیکل کالج قائم کئے جا رہے ہیں اور ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو تمام بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا جا رہا ہے تاکہ تدریسی ہسپتالوں پر بوجھ کم کیا جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ صحت کارڈ پروگرام کے تحت مفت علاج پر اب تک 31 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں اور رواں مالی سال کے بجٹ میں مفت علاج سکیم کے لئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔بلاشبہ پی ٹی آئی حکومت نے صحت کے شعبے میں غیر معمولی کام کیا ہے صحت کارڈ پروگرام صوبائی حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔صحت کے نئے اداروں کے قیام کے ساتھ طبی تحقیق کا کام مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔تپ دق، سرطان، جذام، چیچک اور دیگر موذی امراض پر قابو پانے کے بعد کورونا، ڈینگی، کانگو،مانکی پاکس اوردیگر نئی بیماریاں سر اٹھانے لگی ہیں جن کی وجوہات، روک تھام اور تدارک کا ابھی تک کھوج نہیں لگایا جاسکا۔آر ایچ سیزاور بی ایچ یوز کو چوبیس گھنٹے فعال رکھنے سے بڑے ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوگا اور عوام کو گھروں کے قریب ابتدائی طبی امداد کی سہولت میسر آئے گی۔
ضلعی ہسپتالوں کو مطلوبہ سٹاف اور ادویات کی فراہمی کے ساتھ ان کی مانیٹرنگ کا موثر انتظام کرنے سے عوام کی مشکلات میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کسی بھی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی نشانی وہاں پر بنیادی ضروریات کی معیاری دستیابی ہے، جن میں تعلیم، صحت، رہائش اور ٹرانسپور ٹ قابل ذکر ہیں۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے صوبے میں ان تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے بہترین پالیسی اپنائی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں صحت کے شعبے میں خاطر خواہ بہتری نظر آنے لگی ہے وہاں سڑکوں اور انفراسٹرکچر میں ترقی سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی بہت مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بی آر ٹی کی مثال ہی کافی ہے جس نے پشاور کے باسیوں کو بین الاقوامی معیار کے ٹرانسپورٹ نظام سے مستفید ہونے کا موقع دیا ہے، خاص کر خواتین، و طلبہ طالبات کو اس سے جو سہولت میسر آئی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جن کو روزانہ پرائیویٹ مزدہ گاڑیوں اور ویگنوں میں سکول، کالج، یونیورسٹی یا پھر دفتر جانا ہوتا تھا، دھکم پیل اور رش میں وہ کس طرح اپنی منزل مقصود پر پہنچتے تھے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔