پشاور کہانی: چشم بد دور 

محرم کی حرمت اور اِس کی مناسبت سے پیش آنے والے واقعات کے منظر و پس منظر سے کسی کو اختلاف نہیں اور نہ ہی ”دین است“ اور ”دین پناہ است“ کی ذات گرامی اور اِن کی کامیابی و سرخروئی پر ایک سے زیادہ رائے پائی جاتی ہے۔ خوش آئند ہے کہ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی مختلف مذاہب اور مسالک کے ماننے والے محرم الحرام کے تقدس کو سمجھتے ہوئے اپنائیت‘ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اگر اِس یگانگت کا جذبہ (مظاہرہ) سارا سال (دیگر مہینوں میں بھی) برقرار (جاری و ساری) رہتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پھولوں کا شہر (پشاور) ملک کے دیگر اضلاع کے لئے مثالی قرار پائے ہر سال امن و امان برقرار رکھنے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ سمجھنا ہوگا کہ حالات معمول پر لانے کے لئے قبل از محرم اور بعدازمحرم بھی خلوص ِنیت اور جذبے سے امن و امان کی بحالی کے لئے کوششیں کی جائیں۔ 

ہر سال محرم الحرام کے پہلے عشرے (دس دن کے دوران) ہزاروں کی تعداد میں اضافی پولیس اہلکاروں کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا ہے اور اِس دوران بالخصوص اندرون شہر کے علاقوں میں آمدورفت اور مواصلاتی نظام جزوی یا کلی طور پر معطل کرنے کے بھی سوائے عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات میں اضافے کوئی خاص (قابل ذکر) نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ پشاور کے داخلی و خارجی راستوں کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے لیکن بنیادی بات اور ضرورت اپنی جگہ موجود ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے پر پہلے سے زیادہ افرادی و مالی وسائل خرچ کرنے کی ضرورت آخر پیش ہی کیوں آتی ہے اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ پریشان کن ملکی معاشی حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ قومی وسائل کی زیادہ سے زیادہ اور ہرممکنہ حد تک بچت کی جائے۔ سوچئے کہ آخرکیوں ممکن نہیں رہا کہ محرم الحرام یا دیگر مذہبی مناسبت والے ایام کو ’حسب ِشان‘ بنا خوف اور ایک دوسرے کی جان و مال کی حرمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسی طرح منایا جائے جس طرح قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد چار دہائیوں تک کا ماحول و معمول رہا ہے۔

محرم الحرام کے پرامن انعقاد کے لئے خصوصی حفاظتی انتظامات میں مختلف مسالک کے ”شعلہ بیان“ مقررین کے ضلع پشاور میں داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے تاکہ وہ اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے امن و امان کی پہلے ہی سے مخدوش صورتحال کو مزیدخراب نہ کریں لیکن ’سوشل میڈیا‘ کے زمانے نفرت و اختلاف کو بڑھانے والی تقاریر اور بیانات کے ٹکڑے (clips) گردش کر رہے ہیں جنہیں روکنے کے لئے خیبرپختونخوا کے پولیس حکام کو حکمت عملی وضع کرنی چاہئے اور جس طرح ’محرم الحرام سیکورٹی پلان‘ تشکیل دے کر گلی کوچوں اور بازاروں کے چپے چپے کی نگرانی کی جا رہی ہے بالکل اُسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے شیئر (تبادلہ) ہونے والے مواد کی بھی نگرانی ہونی چاہئے اور اِس سلسلے میں سوشل میڈیا صارفین کی رہنمائی کے لئے ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔

 بات صرف ’محرم الحرام‘ تک محدود نہیں اور نہ ہی اِسے محدود سمجھا جائے بلکہ پشاور کو ہر ایک ’چشم ِبد‘ سے مامون رکھنے اور ’چشم بددور‘ سے پناہ (بچانے) کے لئے بھی کوششیں ہونی چاہیئں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا صارفین کو بھی ’قومی ذمہ داری‘ کا احساس کرتے ہوئے ’ازخود ذمہ داری‘ کا ثبوت دینا چاہئے اور ایسے کسی بھی مواد (پوسٹ) کو پھیلانے (شیئر کرنے) کا مؤجب (ذریعہ) نہیں بننا چاہئے جس سے بھائی چارے‘ اخوت اور امن و امان کی صورتحال مکدر ہو۔