کفایت شعاری کا عملی نمونہ

جرمنی کی خاتون چانسلر انجیلا مرکل یورپ کے ترقی یافتہ ملک پر سولہ سال حکمرانی کرنے کے بعد جب ایوان صدر سے اپنا پرس اٹھا کر باہر نکلیں تو پوری قوم نے کھڑے ہوکر ان کے لئے چھ منٹ تک تالیاں بجائیں۔ایوان صدر سے وہ سیدھی اس اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئیں جہاں وہ چانسلر بننے سے پہلے رہتی تھیں۔ایک انٹرویو کے دوران صحافی نے انجیلا مرکل سے پوچھا کہ آپ کافی عرصے سے ایک ہی سوٹ پہنے نظر آرہی ہیں کیا آپ کے پاس کپڑوں کا دوسرا جوڑا نہیں ہے۔ مرکل نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں کوئی ماڈل تو نہیں ہوں کہ روزانہ سوٹ تبدیل کروں۔انہوں نے بتایا کہ چانسلر ہونے کے باوجود انہوں نے گھر میں کوئی ملازم نہیں رکھا۔اپنے شوہر کے ساتھ مل کر وہ کپڑے خود دھوتی ہیں، انہیں استری کرتی ہیں، گھر کی جھاڑ پونچھ اور صفائی بھی خود کرتی ہیں اوراپنا کھانا بھی میاں بیوی خود تیار کرتے ہیں۔

سولہ سال ایک ترقی یافتہ ملک پر حکمرانی کرنے والی انجیلا مرکل نے کوئی جائیداد، کارخانہ اور کسی غیر ملکی بینک میں اکاونٹ نہیں کھولی نہ ہی عالیشان محل بنوایا۔ان کے پاس کوئی قیمتی گاڑی نہیں ہے۔انہوں نے قومی وسائل سے کبھی بیرون ملک علاج نہیں کروایا نہ کسی ملک کا سرکاری یا غیر سرکاری دورہ کیا۔ اور جب کسی قوم کی قیادت اس قدرسادہ مخلص اوردیانت دارہو۔ تو اس قوم کو ترقی کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ یہ وہ طریقہ ہے کہ جس سے کسی بھی قو م میں کفایت شعاری کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے یعنی خود نمونہ بن کر دوسروں کو اس طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔جرمنی یورپی ممالک میں سب سے ترقی یافتہ اور مالدار ترین ممالک میں سے ہے اور اس کووجہ شاید یہی ہے کہ وہاں پر بحیثیت قوم کفایت شعاری کو مزاج کا حصہ بنایا گیا ہے۔

 اس وقت دیکھا جائے تو ہماری معیشت کو جس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور جن مشکلات سے اس وقت ملک دوچار ہے اس سے نکلنے کا ایک راستہ یقینا کفایت شعاری ہے اور اس میں تمام قوم کو مل جل کر حصہ ڈالنا ہوگا۔اگر ہر کوئی اپنے طرز زندگی پر نظر ڈالے تو اسے معلوم ہوگا کہ ایسے بہت سے اخراجات ہیں جن سے چھٹکارا پانا ممکن ہے۔ اسی طرح ملکی در آمدات میں سے بہت سے ایسے آئٹم ہیں جن کو ہم وقتی طور پر ہی سہی مگر چھوڑ ضرور سکتے ہیں۔ ان پر تعیش اشیاء کی درآمد کو ہم اگر روک دیں تو یقینا اس سے ملکی خزانے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہوگی۔

 اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم غیر ملکی اشیاء پر ملکی اشیاء کو ترجیح دیں اور جو اشیاء ملک میں بنی ہیں ان کو ہی خرید کر استعمال میں لائیں تو اس سے ملکی صنعت کو فروغ ملے گا اور ملکی اشیاء کی قدر بڑھے گی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملکی اشیاء کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا جائے تاکہ وہ غیر ملکی اشیاء کا مقابلہ کرسکیں اورعوام ان کو ترجیح دیں۔ چین، تائیوان، فلپائن، کوریا اور بہت سے ایسے ممالک ہیں جنہوں نے محض اسلئے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے کہ وہاں پر ملکی اشیاء کو ترجیح دی جاتی ہے اور آج ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔