معدنی ذخائر کی نیلامی


صوبائی حکومت نے ارندو سے بروغل اور ارکاری سے شندور تک چترال کے دونوں اضلاع میں معدنیات کی تلاش کے لئے گیارہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کو لائسنس جاری کر دئیے ہیں۔سرکاری طور پر جاری مراسلے کے مطابق ان کمپنیوں کو 41 لاکھ 66 ہزار 900 چکورم رقبے کے اندر معدنیات کی تلاش کا اختیار دیا گیا ہے۔جن بین الاقوامی کمپنیوں کو یہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں ان میں میگ کو پرائیویٹ لمیٹڈ کو تین، نارتھ امریکن مائننگ کمپنی کو تین، قمبر انٹرپرائزز کو دو،ٹونی پاک،کیونی انٹرنیشنل، یوسف زئی مائننگ کمپنی، ریڈ سن مائننگ کمپنی اور سینٹرل ایکس چینج کمپنی کو ایک ایک لائسنس جاری کیا گیا ہے جن علاقوں میں معدنیات تلاش کرنے کی  ان کمپنیوں کو اجازت دی گئی ہے ان علاقوں کا مجموعی رقبہ دو ہزار 802 مربع کلو میٹر بنتا ہے۔چترال کے سنگلاخ پہاڑوں کو قدرت نے معدنی ذخائر سے مالا مال کر رکھا ہے۔ یہاں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہے۔یہ 1960 کے عشرے کا واقعہ ہے۔ میری ماموں زاد بہن کے سسر شاہی محل میں ملازم تھے اس وقت  برطانیہ سے معدنیات کے دو ماہرین چترال کے دورے پر آئے انہوں نے والئی
 چترال سے اپر چترال کے بعض علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ والئی چترال نے نہ صرف انہیں اجازت دیدی بلکہ اپنے خانساماں کو بھی ان کی خدمت گذاری کے لئے ساتھ بھیجا۔ ان ماہرین نے کشم کے علاقے میں پہنچ کر اپنا کیمپ لگا دیا اور ریسرچ میں مصروف ہوگئے۔ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے اپنی کامیابی کا اعلان کیا تاہم دونوں ماہرین سر پکڑ کر بیٹھ گئے خانساماں نے جب ان سے کامیابی کے اعلان اور پریشان ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ کشم میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور سونے کی یہ کانیں 
 سوویت یونین کی سرحد تک پھیلی ہوئی ہیں ان کے پریشان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ بہت دور ہے یہاں مشینری پہنچانا کافی مشکل ہے اور سوویت یونین اس پر قابض ہوسکتا ہے۔چترال میں سونے کے علاوہ یاقوت، زمرد، جپسم، اینٹی منی، یورینیئم، شیلائیٹ، خام دھات اور سنگ مرمر کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اگر حکومت ان معدنی ذخائر کو خود نکالنے کی منصوبہ بندی کرے تو نہ صرف ہم بیرونی قرضے چکا سکتے ہیں بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ہم نے ان سطور میں بارہا حکومت سے سفارش کی تھی کہ معدنیات اور سیاحت کے فروع پر توجہ مرکوز رکھنے سے یہ صوبہ چند سالوں کے اندر خود کفیل ہو سکتا ہے۔