اس میں کوئی شک نہیں کہ جس ملک میں ترقی کا سفر تیز ہے وہاں پر ٹیکس کولیکشن کا نظام فعال ہے اور حصہ بقدر جثہ قومی خزانے میں ٹیکس جمع کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کسی ملک کی ایک بڑی آبادی ٹیکس ادا کرنے میں تو دلچسپی نہ لے اور ان کو بنیادی سہولیات اور ضروریات بھر پور انداز میں فراہم ہوں۔اس طرح ٹیکس کے نظام کو اس طرح ترتیب دنیا بھی ضروری ہے کہ حصہ بقدر جثہ کا فارمولا اس پر صادق آئے یعنی جو جتنا زیادہ کما رہا ہے اس قدر زیادہ ان سے ٹیکس بھی وصول ہو۔ اب تک تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ ہی ٹیکس ادا کرنے والوں میں سرفہرست ہے۔یعنی ایک طرف اس وقت جہاں ٹیکس کا دائرہ پھیلانے کی ضرورت ہے وہاں زیادہ کمائی کرنے والے اور دولتمند شہریوں کو اس سلسلے میں زیادہ ٹیکس دے کر مثال اور نمونہ بنناچاہئے۔ اچھی اور حوصلہ افزاء خبر یہ ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں فیڈرل بیورو آف ریونیو(ایف بی آ)کے محصولات میں 10 فیصد کا اضافہ ہوگیا۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ماہ جولائی میں 458 ارب روپے کے محصولات اکھٹے کیے گئے جب کہ اس سلسلے میں ایف بی آر نے مالی سال کے پہلے ماہ جولائی کے لیے 443 ارب روپے محصولات کا ہدف رکھا تھا۔گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں اکٹھے ہونے والے محصولات میں اضافہ 10 فیصد ریکارڈ ہوا ہے۔ اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان کسٹمز نے 67 ارب روپے کے محصولات اکھٹے کیے۔رواں مالی سال انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال 34لاکھ ٹیکس گزاروں نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے، جب کہ گزشتہ مالی سال میں 30لاکھ ٹیکس گزاروں نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے تھے۔
دوسری جانب فیڈرل بور ڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال 2022-23 کے لیے مقرر کردہ 7 ہزار 470 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے کے لیے نادرا سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔حکام کے مطابق نادرا سے زیادہ اخراجات والے مزید ساڑھے 3ہزار افراد کا مکمل ڈیٹا طلب کرلیا گیا ہے جبکہ ٹریک اینڈ ٹریس اور پوائنٹ آف سیل سسٹم سے بھی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے غیر ملکی دوروں، مہنگی گاڑیوں، جائداد کی خریداری کا ریکارڈ چیک کیا جائے گا۔ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے آڈٹ سسٹم بھی استعمال کیا جائے گا جبکہ ٹیکس نادہندگان کے بینک اکانٹس کی جانچ پڑتال ہوگی۔
دیکھا جائے تو مربوط اور منظم کوششوں کے نتائج ضرور سامنے آتے ہیں اور ٹیکس ریونیو میں اضافہ اس کا ثبوت ہے، اس سال چار لاکھ سے زائد ٹیکس گوشواروں میں اضافہ یقینا اس امر کی نشانی ہے کہ شہریوں میں ٹیکس جمع کرنے کا رجحان بڑھا ہے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کی طرف ٹیکس گزاروں کی ادا کی گئی رقم کو عوامی فلاح اور ان کو سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں میں خر چ کیا جائے تاکہ ٹیکس گزاروں کو یہ احساس ہو کہ ان کے ادا کردہ ٹیکس سے انہی کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اگر تعلیم، صحت اور بجلی کی مد میں عوام کو ریلیف مل جائے تویقینا ان کی مشکلات میں کمی آئے گی۔